کشمیر کے واسی ہونے کے باوجود ہم یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ دفعہ ۳۷۰ کیا تھی اور کیا نہیں ۔ کبھی کوشش … اسے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی ۔کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو ئی … اور اس لئے نہیں ہو ئی کیوںکہ ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ… کہ جو ہے‘ جیسی ہے‘ یہ دفعہ … دفعہ ۳۷۰ ہماری ہے‘ کسی اور کی نہیں بالکل بھی نہیں… کہ کوئی اسے ہاتھ تک نہیں نہیں لگا سکتا ہے … ہم بھی اسی زعم میں تھے ور… اور پھر ایک دن صبح صبح ایسا ہوا کہ … کہ اسے نہ صرف ہاتھ لگایا گیا بلکہ … بھاری بھرکم ہتھوڑے سے اسے زمین بوس کیا گیا … ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کیا گیا … اس کے زمین بوس ہونے کے بعد ہماری سمجھ میں آگیا کہ یہ دفعہ کیا تھی اور… اور کیا نہیں … نہیں صاحب ہم نے اسے سمجھنے ‘ اسے جاننے کیلئے موٹی موٹی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا اور… اور بالکل بھی نہیں کیا… بس اس کے زمین بوس ہونے کے بعد اس کے بارے میں دہلی سے سرینگر میں جو کچھ بھی کہا گیا … کہا جارہاہے ‘ ہم اب سمجھ رہے ہیں ‘ ہماری سمجھ میں آرہا ہے کہ دفعہ ۳۷۰ کیا تھی اور کیا نہیں … اور اس کیلئے …ہمیں سمجھانے کیلئے کہ یہ دفعہ کیا تھی اور کیا نہیں ہم مودی جی ‘ ان کے امیت بھائی شاہ اور … اور نہ ایل جی سنہا صاحب کے مشکور ہیں… ہم مشکور و ممنون ہیں تو اُس بہاری بابو کے جنہوں نے بڈگام کی ایک مسلم خاتون سے شادی کی اور… اور اسے اپنے ساتھ بہار لے گئے ۔ جب اس بہاری بابو سے ایک انٹرویو میں اس کشمیری مسلم خاتون سے شادی کے بار ے میں پوچھا گیا تو… تو انہوں نے بڑے ادب اور احترام سے نریندرا بھائی مودی کا شکریہ ادا کرتے ہو ئے کہا دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کہ وجہ سے ہی یہ شادی ممکن ہو ئی … اگر نریندرا بھائی دفعہ ۳۷۰ کو زمین بوس نہیں کرتے تو… تو ان کیلئے کشمیر کی مسلم خاتون سے شادی کرنا ممکن نہیں تھا ۔ہم واقعی میں اس بہاری بابو کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ دفعہ ۳۷۰ میں کیا کیا تھی اور کیا کیا نہیں… اس میں غیر مقامیوں سے شادی نہیں تھی ‘یہ ہم اب سمجھ گئے …کیونکہ اب یہ دفعہ… دفعہ ۳۷۰ نہیں ہے…ہے نا؟