پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے لیکن کشمیر سے منتخب پارلیمان کے ارکان کا جلوہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ویسے بھی جب پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہوتا تو یہ صاحبان کشمیرکو بحیثیت مجموعی دور کی بات اپنے اپنے حلقوں میں بھی دکھائی نہیں دیتے البتہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کسی نہ کسی حوالہ سے خبرو نظرمیں ہیں۔
کشمیر مسائل اور معاملات کے بہت سارے پہاڑوں کے تلے دبا کچلا ہے، ان معاملات اور مسائل پر اپنی پارٹی کا سید الطاف بخاری ، پیپلز کانفرنس کا سجاد غنی لون، کچھ دوسرے کبھی کھل کر ، کبھی دبی دبی زبان میں تو کبھی اشاروں اور کنایوں میں بات کرکے کشمیرکی ترجمانی اور نمائندگی کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کرتے سنے اور دیکھے بھی جاتے ہیں لیکن نیشنل کانفرنس سے وابستہ جنو ب اور شمال کے یہ دوارکان پارلیمنٹ نہ جانے اپنی کن مصلحتوں اور سیاسی مجبوریوں کے پیش نظر ’موت بھرت‘ کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ ان کے اس طرزعمل اور انداز فکر سے یہی احساس ہورہا ہے کہ جیسے ان کی نگاہوں میں کشمیرمیں کچھ بھی نہیں ہورہاہے بلکہ سب کچھ معمول کے مطا بق ہورہاہے۔
کیا عوام نے یہی منڈیٹ انہیں تفویض کیاتھا کہ منتخب ہوکر وہ پارلیمنٹ میں جائے، رکنیت کا حلف اُٹھائیں اور اپنی ماہانہ بھاری بھرکم تنخواہیں اور دیگر مراعات کو اپنے اپنے حق میں ’حلال‘ کرکے حلق سے نیچے اُتاریں۔ غالباً یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب کشمیر سے منتخب کسی پارلیمنٹ ممبر نے اس قدر اور اس حد تک خاموشی اختیار کررکھی ہو۔ مرحوم شمیم احمد شمیم بھی پارلیمنٹ کے رکن رہے تھے، عمر عبداللہ بھی اس گھاٹ سے پانی پی کر واپس آچکے ہیںاور بھی کچھ دوسرے اصحاب رکن ایوان رہے ہیں لیکن وہ کبھی کشمیرکے تعلق سے عوامی معاملات ، مفادات، حقوق اور مسائل سے غافل نہیں رہے، آواز بلند کرتے رہے، عوام کے حقو ق اور مفادات کی لڑائی لڑتے رہے۔
ممکن ہے حسنین صاحب اور محمد اکبر گنائی صاحب اپنے اپنے حلقوں کیلئے کچھ نہ کچھ حاصل کرتے رہے ہوں لیکن خود ان کے حلقوں کے لوگوں میں اس حوالہ سے کوئی زیادہ جانکاری نہیں، پھر پارلیمنٹ میں مختلف ریاستوں سے جو ممبران منتخب ہوکر آرہے ہیں ان کی پارلیمانی سرگرمیاں ان کے اپنے مخصوص حلقوںتک کے حوالوں سے محدود نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی ریاستوں کے تعلق سے معاملات اور مسائل پر بات کرتے ہیں، ترقیاتی عمل میں اپنا حصہ طلب کرتے ہیں، سیاسی نوعیت کے معاملات میں عوام کی خواہشات اور ضرورتوںکو ایوان میں پیش کرتے ہیں لیکن یہاں کشمیرکے تعلق سے معاملہ بالکل اُلٹ دکھائی دے رہاہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کی مدت محض ایک ڈیڑھ سال باقی رہ گئی ہے لیکن کشمیر سے تعلق سے رکھنے والے ممبران صاحبان کس ایجنڈا کے تحت پارلیمنٹ میں چلے گئے اور چلے جانے کے بعد بہت کم نظرآرہے ہیں یہ واقعی ایک معمہ ہے۔
یہ اصحاب خاموش رہ کر تنخواہیں اور مراعات جیبوں کی زینیت بنارہے ہیں اس پر اعتراض نہیں کیونکہ بحیثیت منتخبہ رکن یہ ان کا حق ہے لیکن جن لوگوںنے انہیں منتخب کیا ان کی بھی کچھ توقعات رہی ہیں، ووٹ دیتے وقت رائے دہندہ گان نے پارٹی کی جانب سے اور ان ممبران کی جانب سے ان وعدوں ،ا علانات ، یقین دہانیوں کو ملحوظ خاطر رکھا تھا جو انتخابی مہم کے دوران ان کے پاس جا کر دی گئی تھی لیکن ساڑے تین سال گذ ر گئے ،ا ن گذرے سالوں کے دوران کشمیر زندگی ، سیاست ،معیشت انتظامیہ اور دیگر شعبوں کے حوالوں سے بہت سارے نشیب وفراز سے ہو کر گذر بھی گیا اور فی الوقت بھی گذررہاہے لیکن ہمارے ممبران صاحبان اُن تین بندروں کا سا روپ دھارن کرچکے ہیں جو سب کچھ اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اپنے کانوں سے سُننے کے باوجود مہر بہ لب ہیں۔
ان کا یہ انداز اور کردار عوامی منڈیٹ کی ہی توہین اور تضحیک نہیں ہے بلکہ کچھ اور بھی ہے لیکن جس کچھ او ر بھی ہے ، کو فی الحال زبان دینے سے اجتناب کیاجارہاہے ۔ ان کی پارٹی کا بانی مرحوم شیخ محمدعبداللہ بار بار کہا کرتے تھے کہ عوام کو تسخیر شدہ شئے اور بھیڑ بکریوں کا ریوڑ سمجھنے کی حماقت نہیں کرنی چاہئے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کے عہدیدار باالخصوص منتخبہ ارکان اپنی انتخابی کامیابیوں کو شاید اپنی کسی خوش فہمی میں مبتلا تصور کررہے ہیں لیکن ان کی سوچ او رتعبیر کی یہ فاش غلطی ہے ، کشمیر سہاروں اور بیساکھیوں کی سیاست سے بہت آگے نکل پڑا ہے، حالات اور ترجیحات دونوں میں تبدیلی بڑی تیزی سے آرہی ہیں، لوگوں کی ضروریات اور خواہشات کا خدوخال میں بھی بدلائو آرہا ہے اور اس بدلائو میں لوگوں کو تسخیر شدہ شئے اور بھیڑ بکریوں کا ریورڈ سمجھنا سیاسی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
ساڑھے تین سال یعنی اب تک کی کارکردگی ، جو انتہائی مایوس کن اور بے نتیجہ رہی، کو مد نظر رکھتے ہوئے جنوب او ر شمال سے وابستہ ان دونوں پارلیمنٹ کے ارکان سے مطالبہ کرتے کہ وہ اپنی صریح ناکامی کا اعتراف کرکے رکنیت سے مستعفی ہوکر واپس گھروں کو لوٹ آئیں لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اقتدار یا مرکز اقتدار تک رسائی کی سہولیت اور حیثیت سے آج تک کوئی دستبردار نہیں ہوا ہے، البتہ ملک کی پارلیمانی تاریخ کے حوالہ سے محض چند ایک افرادہی ایسی کسی فہرست میں نظرآرہے ہیں جنہوںنے مختلف وجوہات کی بنا پر رکنیت سے دستبردار دی ہو۔
یہ دونوں مراعات پسند اور مراعات طلب ہیں اوران سے یہ توقع رکھنا کہ وہ پارلیمنٹ کی باقی ماندہ ڈیڑھ سال کے قریب مدت کوکشمیر کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کیلئے وقف کریں گے اور پارلیمنٹ میں اپنی آواز بلند کرکے ملک کی قیادت کو ان معاملات سے آگاہی دلائیں گے جو معاملات یہاں روز کا معمول بن رہے ہیں کے حوالہ سے بھی کوئی توقع نہیں۔
افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ پارٹی کی لیڈر شپ بھی اپنے ان دو ارکان کے مایوس کن رول کو مسلسل نظرانداز کررہی ہے۔ کیا پارٹی کیلئے یہ کوئی مجبوری بن چکی ہے یا کسی مصلحت کا شاخسانہ ، کچھ وثوق سے کہا نہیں جاسکتا، لیکن پارٹی کی اعلیٰ لیڈر شپ کو اپنی جگہ یہ احساس ہونا چاہئے کہ جب اگلے الیکشن کا مرحلہ پیش آئے گا تو اس وقت وہ ان دو مخصوص پارلیمانی حلقوں کے لوگوں کو کیا جواب دیں گے، کیسے ان کو مطمئن کریں گے کہ انہوںنے جن دو ارکان کو اعتماد دے کر پارلیمنٹ روانہ کیا تھا انہوںنے ملک کے اس اعلیٰ ایوان میں ان کی مستند آواز بن کر ان کی ترجمانی کی ؟غالباً پارٹی لیڈر شپ کے پاس ان کچھ سوالوں کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں!