سرینگر// (ویب ڈیسک )
نقدی کی کمی کا شکار پاکستانی کرنسی جمعہ کو انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی اور ۶ء۶۲۶ روپے پر بند ہوئی۔
ایک مرحلے پر اوپن مارکیٹ میں کرنسی ۲۶۵ روپے اور انٹربینک میں ۲۶۶ روپے تک گر گئی، اس سے پہلے کہ دن کے اختتام تک اس میں معمولی ریکوری ہوئی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جمعہ کو جب مارکیٹ کھلی تو جمعرات کے بند ہونے سے کرنسی ۱۷ء۷ روپے یا۷۳ء۲ فیصد گر گئی۔
انٹربینک میں جمعرات سے پاکستانی روپے کی قدر میں ۳۴ روپے کی کمی ہوئی ہے، جو کہ ۱۹۹۹ میں نئے زر مبادلہ کی شرح کے نظام کے متعارف ہونے کے بعد سے مطلق اور فیصد دونوں لحاظ سے سب سے بڑی گراوٹ ہے۔
حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تعطل کا شکار قرض پروگرام کو بحال کرنے کے لیے امریکی ڈالر۔پاک روپیہ کی شرح مبادلہ پر غیر سرکاری حد ہٹانے کے بعد پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔
ماہر معاشیات شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ وزیرِ خزانہ کی جانب سے غلط فیصلہ سازی کے باعث ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی ہوئی، کرنسی مارکیٹ کو کنٹرول میں رکھنے سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
اْن کا کہنا تھا کہ ملک میں ترسیلات زر میں ۱۰فی صد اور برآمدات میں بھی ۱۶ فی صد کے قریب کمی دیکھی گئی۔
بٹ کا کہنا تھا کہ اگر یہی سب پہلے کرلیا جاتا تو آئی ایم ایف کا پروگرام بھی بحال رہتا، ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اس حد تک کمی نہ ہوتی اور دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ قرض پروگرام بحال کرنے کے ساتھ چینی اور اماراتی بینکس کو بھی اپنے قرض ری شیڈول کرنے پر راضی کیا جاسکتا تھا۔