سرینگر//
جموں کشمیر میں جاری انسداد تجاوزات مہم میں اگرچہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے یقین دہانی کی کہ عام آدمی اور غریب لوگوں سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے بلکہ سرکار ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے فکر مند ہے۔وہیں آج جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے ہفتہ کے روز ایل جی منوج سنہا کو اس بارے میں ایک خط لکھا ہے۔
لون نے خط میں زور دیا کہ وہ اس حوالے سے ایک واضح آرڈر جاری کریں جس میں غریب عوام کو اس انہدامی کارروائی کے لیے مستثنیٰ رکھا جائے۔
لون نے خط میں کہا کہ سماجی اور سیاسی میدان میں آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ غریب طبقات کو ریاستی اور کہچرائی اراضی کی بازیابی کیلئے حکومت کی مہم سے بچایا جانا چاہیے۔
خط میں ان کا کہنا تھا ’’میں آپ کو سرکاری اراضی اور پرائیویٹ لوگوں کے قبضے میں کہچرائی زمین کو واپس لینے کی حکومت کی مہم کے بارے میں لکھنے کی آزادی لے رہا ہوں۔ معاشرے کے غریب طبقات کو بچانے کیلئے سماجی اور سیاسی میدان میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ہم نے بھی ریاستی زمین پر غیر قانونی قبضے کی اصل ساخت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور واضح طور پر اس بات کی وکالت کی ہے کہ غریبوں کو بخشا جانا چاہیے‘‘۔
خط میں مزید کہا گیا ہے ’’ دیہی علاقوں میں قبضے ضرورت سے جنم لیتے ہیں اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو کئی دہائیوں سے بلا روک ٹوک جاری ہے۔ کسی بھی حکومت نے اسے کبھی چیلنج نہیں کیا کیونکہ اس نے جموں کشمیر کو ایک منفرد ریاست بنا دیا‘ جہاں بے گھر افراد کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیہی علاقوں میں قبضے کی اکثریت چھوٹی زمینوں پر مشتمل ہے، جس میں مالکان نے ایک چھوٹا سا گھر بنایا ہے‘‘۔
خط میں لون نے مزید لکھا ہے ’’آپ نے یہ اعلان کرتے ہوئے بہت احسان کیا کہ غریبوں کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا، لیکن باضابطہ حکم کی عدم موجودگی میں غریبوں کو ہی چھوا جا رہا ہے۔ میں آپ سے ایک باضابطہ غیر مبہم حکم جاری کرنے کی درخواست کرنے کیلئے لکھ رہا ہوں، جو غریبوں کو بخشتا ہے اور ضرورت سے پیدا ہونے والے قبضے اور زمین پر قبضے سے پیدا ہونے والے قبضے کے درمیان فرق کرتا ہو‘‘۔
لون نے دعویٰ کیا کہ واضح حکم کی عدم موجودگی سے یقینا بدعنوانی کی اطلاعات معصول ہو رہے ہیں۔لون نے کہا کہ وہ اس بات کی پرزور وکالت کریں گے کہ ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جس میں حکومت غریبوں کی شناخت کے لیے ایک معیار متعین کرے اور انہیں مالکانہ حقوق فراہم کرے۔
خط میں آخر میں لکھا گیا ہے ’’میں کہوں گا کہ تاریخ بننے کا انتظار ہے۔ آئیے امید کریں اور دعا کریں کہ آپ اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور معاشرے کے غریب ترین طبقوں کے لیے تاریخ رقم کرنے کے قابل ہو جائیں۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو اسے ایک تاریخی سنگ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور سٹیٹ مین شپ کا ایک اعلی عمل ہوگا۔‘‘