نئی دہلی//
بھارت کی سپریم کورٹ نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ۲۰۱۶ میں نوٹ بندی کے فیصلے کو جائز قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے پیر کو اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ حکومت نے نوٹ بندی کا فیصلہ مرکزی بینک سے مشاورت کے بعد تمام قانونی طریقۂ کار کے تحت کیا تھا۔
خبر رساں ادارے’رائٹرز‘ کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں بھارت میں قائم بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ۲۰۱۶ میں ملک بھر میں زیرِ گردش۸۶ فیصد کرنسی نوٹوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نوٹ بندی مہم کے تحت حکومت نے ایک ہزار اور ۵۰۰ کے نوٹ بند کر دیے تھے جس کے بعد شہریوں کو رقم کے حصول میں کئی ماہ تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سپریم کورٹ میں وکلا، سیاسی جماعتوں، نجی بینکوں اور عام افراد نے نوٹ بندی کے حکومتی فیصلے کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پیر کو نوٹ بندی کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر سنایا۔چار ججوں نے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک نے مخالفت میں اپنی رائے دی۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس سید عبد النظیر کر رہے تھے جب کہ اس کے ارکان میں جسٹس بھوشن راماکرشنا گوائی، جسٹس بنگلور وینکاتارامیہ (بی وی) ناگارتھنا، جسٹس اجکتریا سومایا (اے ایس) بوپنا اور وی راماسبرامنیم شامل تھے۔
بھارت کے چار بار مختلف حکومتوں میں وزیرِ خزانہ رہنے والے کانگریس رہنما پی چدمبرم ان وکلا میں شامل تھے جنہوں نے نوٹ بندی مہم کے خلاف دلائل دیے۔
حکومت نے نوٹ بندی مہم کو’ڈی مونوٹائزیشن‘قرار دیا تھا۔ وزیرِ اعظم نریندری مودی نے خود اس مہم کی قیادت کی تھی اور اس مہم کو سیاہ دھن، بدعنوانی اور غیر اعلانیہ مال کے خلاف مہم قرار دیا تھا۔
ایک ہزار اور ۵۰۰ روپے کے نوٹوں کی بندش کے باعث بھارت کی نقد رقم پر چلنے والی معیشت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
نوٹوں کی بندش کی خبریں نشر ہونے کے بعد بینکوں کے باہر شہریوں کی طویل قطاریں لگ گئی تھیں جس میں زیادہ تر افراد کی کوشش تھی کہ وہ اپنی اس رقم کو تبدیل کرا سکیں جو انہوں نے بچت کے طور پر محفوظ رکھی ہوئی ہے۔
اس افراتفری کے دوران کئی افراد نے حکومتی فیصلے کی حمایت کی تھی اور نوٹ بندی مہم کو بدعنوان امیروں کے خلاف غریبوں کی لڑائی قرار دیا تھا۔
بھارت کے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں نوٹ بندی کے خلاف ۵۸ درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بعض درخواست گزاروں نے دلائل بھی دیے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ حکومت کی جانب سے سامنے آنے کے بجائے مرکزی بینک کو کرنا چاہیے تھا۔
سپریم کورٹ کے پیر کو سامنے آنے والے فیصلے پر حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس فیصلے میں نوٹ بندی کے اثرات کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا گیا۔
حزبِ اختلاف کی جماعتیں نوٹ بندی کے حکومتی فیصلے کو تباہ کن اقدام قرار دیتی رہی ہے۔
کانگریس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے اکثریت کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے میں نوٹ بندی کے اقدام کے طریقہ کار کے حوالے سے بحث کی گئی ہے لیکن اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔
کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے پیر کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) یہ پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کے فیصلے کو منظوری دے دی ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کے نتائج اور اثرات کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے عمل کے بارے میں تبصرہ کیا۔
کھیرا نے اسے بی جے پی کا برا پروپیگنڈہ قرار دیا اور کہا کہ کانگریس نے نوٹ بندی کو لے کر جو سوالات اٹھائے تھے آج بھی وہی سوالات ہیں۔
کانگریسی ترجمان نے کہا کہ بی جے پی کنفیوژن پھیلا رہی ہے اور یہ پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ درست تھا اور آج عدالت نے بھی اسے درست قرار دیا ہے ، جبکہ فیصلے میں کہیں بھی ایسا کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے ۔
کھیرا نے کہا کہ اسی فیصلے سے جڑے ایک جج نے ، جسے بی جے پی نوٹ بندی کے حق میں کہہ رہی ہے ، نے اس فیصلے کے عمل پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری سے لیا جانا چاہیے تھا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ عدالت نے فیصلے پر سوالات اٹھائے ہیں۔
کانگریس کے ترجمان نے کہا کہ ان کی پارٹی نے بھی نوٹ بندی کو غلط سمجھا اور اب بھی اسے غلط مانتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی سے نہ تو دہشت گردی ختم ہوئی اور نہ ہی کالے دھن کو روکا گیا۔ اس فیصلے سے چھوٹے تاجر تباہ ہوگئے ہیں اور غیر منظم شعبے کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ۔
کھیرا نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ درست ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اس مسئلہ پر پریس کانفرنس کرنا چاہئے اور نوٹ بندی کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہئے ۔