ہر گذرے سال کی طرح سال ۲۰۲۲ء بھی گذرگیا، کچھ تلخ یادیں چھوڑ گیا تو کچھ شیرین لمحات اور یادوں کے نقوش بھی چھوڑ ے، ہر گذرے سال کی طرح سال ۲۰۲۲ء کے آغاز پر ہر ایک نے یہی دعا کی تھی اور یہی خواہش کی کہ آنے والا نیا سال تمام تر خوشیوں، فارغ البالی، ترقی، امن اور ہر پہلو سے خوشگوار ثابت ہو، کچھ حوالوں سے لوگوں کی یہ دعا قبول ہوئی اور کچھ کی یہ خواہشیں پوری ہوئی لیکن یہ کہنا سب کیلئے بیتا سال خوشگوار یادوں کے ساتھ وداع ہوا درست نہیں۔
عموماً گذرے سال کے بارے میں ہر زبان پر یہی جملہ ہوتا ہے کہ کیا کھویا او رکیا پایا، یہ اب محاورہ بن چکا ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر گذرتے دن کے ساتھ پاتا بہت کم ہے البتہ کھوتا بہت زیادہ ہے۔ کھونے اور پانے کے اعتبار سے الگ الگ سے تجزیہ کیاجائے تو تاریک پہلو زیادہ اُبھر کر سامنے آجائیں گے۔جبکہ پانے کے اعتبار سے بہت کم خوشگوار یا اطمینان بخش پہلو اُجاگر ہوتے نظرآجائیں گے۔
بہرحال ہر بیتا سال بنی نوع انسان کو یہ موقع بھی فراہم کررہا ہے اور غو روفکر کی بھی دعوت اور ترغیب دے رہاہے کہ اس نے جو کچھ گذرے سال کے دوران کیا اس کا محاسبہ کرے۔ لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو خود احتسابی میں یقین رکھتے ہیں جبکہ اکثریت اس فکر اور عمل کی حامی ہے کہ جو کچھ بیت گیا، جو کچھ کیا اسے بھول جائو اور آگے بڑھو۔ قطع نظر اس بات کے کہ چاہئے اُس فکروعمل ، حصول اور عدم حصول کی بُنیاد غلط اور منفیات پر ہی کیوں نہ ہو۔
جموںوکشمیر بھی اس گذرے ایک اور سال کی طرح بہت سارے نشیب وفراز سے ہوکر گذرا، تین سال قبل جس نئے جموں وکشمیر کی بُنیاد رکھی گئی، جس نئے جموں وکشمیر کے لئے حال اور مستقبل کے حوالہ سے جو خاکے کھینچے گئے اُن خاکوں میں رنگ بھرنے کا عمل جاری رہا، جو پروجیکٹ عوام کی ترقی اور معاشی زندگی بہتر بنانے کے لئے ہاتھ میں لئے گئے ان میں سے کچھ تکمیل کو پہنچ گئے جبکہ کچھ پر کام جاری ہے، البتہ ان میں سے کچھ پروجیکٹ ایسے ضرور ہیں جن پر بے حد سست رفتاری کے ساتھ کام ہورہاہے، مثال کے طور پر جموں اور سرینگر میں مجوزہ دو ایمز ہسپتالوں کی تعمیر وتکمیل ابھی تشنہ طلب ہیں۔ جموں سرینگر قومی شاہراہ کی چارلین کشادگی اب تک کئی ایک ڈیڈ لائن (آخری حد) اپنے پیچھے چھوڑ گئی ہے، البتہ کٹرہ …بانہال …سرینگر ریلوے لائن کی تعمیر اپنی پوری رفتار سے جاری ہے اور توقع ہے کہ نئے سال کے اختتام تک یہ ریلوے لائن ریل گاڑیوں کی آمد ورفت کیلئے دستیاب ہوگی۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ آبادی کے مختلف طبقے مسائل اور معاملات سے جھوج رہے ہیں۔ کوئی تنخواہ کا منتظر ہے ، کوئی اپنے سروں سے ایڈہاک ازم کی لٹکتی تلواروں سے نجات پاکر مستقل ملازمت کا خواب دیکھ رہا ہے، بے روزگار نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کالعدم شدہ انٹرویوز اور سلیکشن کے بعد اب نئے سرے سے لئے جارہے امتحانات کے منتظر ہیں، توکوئی ملازم طبقہ باالخصوص وادی میں تعینات کشمیری پنڈت ملازمین اپنے سروں پر منڈلارہے دہشت گردانہ خطرات کے ہوتے جموں منتقلی اور تعیناتی کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر ہیں، حکومت بھی اپنی سطح پر ان معاملات سے جھوج رہی ہے، کہنا اور مطالبہ پیش کرناآسان ہے لیکن معاملات کو عملی جامہ پہنانا اتنا آسان نہیں جتنا کہ سمجھایا عوامی سطح پر فرض کیاجارہاہے کیونکہ وسائل محدود ہیں، قوانین اور قوائد وضوابط کا احترام بھی لازم ہے، انتظامی اور سکیورٹی معاملات کے ساتھ ساتھ کچھ ایک لوازمات ایسے بھی ہیں جنہیں آسانی سے نظرانداز کرنا ممکن نہیں، البتہ یہ ساری باتیں اور سارے پہلو اپنی جگہ حکومتی اور انتظامی سطح پر کچھ عجلت ، کچھ سنجیدگی اور کچھ مطالبات کرنے والوں کی مشکلات، پریشانیوں اور تکالیف کے حوالہ سے محسوسات اور جذبہ ہمدردی ناگزیر ہے۔
بیتے سال کے دوران دہشت گردانہ سرگرمیوں سے درپیش چیلنجوں سے عہدہ برآں ہونے کیلئے سکیورٹی ایجنسیوں کا رول اور کردار نمایاں رہا۔ سرحدوںپر دراندازی کے واقعات میں ۲۷ ؍فیصدکمی آئی ہے لیکن سرحد پار سے ڈرون کا بڑھتا استعمال اور ڈرون کی وساطت سے ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آچکاہے۔ ابتدائی ایام میں ڈرون اُڑان بھر کر واپس چلے جاتے لیکن اب انہیں مار گرانے میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سرحد پار سے مختلف طریقوں سے منشیات کی سمگلنگ اور پھر اندرون جموںوکشمیر منشیات کی خرید وفروخت اور استعمال دوسرا بڑا چیلنج رہا اور ابھی بھی ہے۔
سال کے دوران کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمدگی کرلی گئی ہے اور بہت سارے دھندہ سے وابستہ سمگلر اورمعاونت کا ر پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ بڑی کامیابی گذرے ہفتے اس وقت ہوئی جب کپوارہ میں منشیات کے ایک بڑے گروہ کو گرفت میں لایاگیااور ان کی تحویل سے منشیات برآمد کرلی گئی۔ منشیات کی سمگلنگ ، بازاروں تک رسائی اور خرید وفروخت کشمیری سماج کیلئے بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے بلکہ سنگین خطرہ کے طور پر سایہ فگن ہوتا جارہا ہے ۔ کشمیری سماج کی یہ اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ناسور اور اس سے پیدا ہورہے سنگین نوعیت کے مضمرات کا فہم کرتے ہوئے متحد ہوکر حرکت میں آجائیں ورنہ اس سماج کی بے اعتنائی مستقبل کے تعلق سے خود اس کیلئے ہلاکت خیز ثابت ہوسکتی ہے۔ نیا سال کے حوالہ سے جو بھی عزم ہیں ان میں یہ سرفہرست ہونا چاہئے کہ منشیات کا قلع قمع کرنے کیلئے چاہے جو کچھ بھی کرنا پڑے کر گذر جائیں گے اور کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
سیاسی منظرنامہ گذرے سال کے دوران کچھ اطمینان بخش نہیں رہا۔ بانت بانت کی بولیاں بولنا سیاست دانوں کا شیوہ تو ہے ہی لیکن گمراہ کن نعرے جو بادی النظرمیں قابل عمل بھی نہیں بلند کرکے نئے سرے سے عوام کو گمراہ کرنے کی نئی کوشش ہی قرار دی جاسکتی ہے۔کشمیر نشین سیاسی پارٹیوں نے گذرے سال کے دوران عوام کو بحیثیت مجموعی مایوس کردیا ہے۔ پارٹیوں سے مستعفی ہوکر دوسری پارٹیوں میں خیمہ زن ہونے کا سلسلہ جاری رہا، پھول مالائیں پہناکر تقریباً ہر روز فوٹو سیشن منعقد ہوتے رہے لیکن کوئی ایک بھی پارٹی اور ان سے وابستہ کوئی ایک بھی لیڈر یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ وہ اپنے صرف کسی ایک کارکردگی یا راحتی اقدام یا فیصلہ کا حوالہ دے کر فخر کرے۔سیاسی یا غیر سیاسی اشو میں سے کسی ایک کا بھی حل تلاش کرنے میں کوئی پیش رفت حاصل کی ہو۔ اس کے برعکس سیاسی پارٹیوں کے درمیان کردارکشی، طعنہ زنی اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچائی کا نہ ختم ہونے والا پاکستانی سیاسی طرز کا گندا اور غلیظ اندازفکر وعمل بغیرکسی ٹھہرائو کے جاری رہا۔
بہرحال خدا کرے کہ جو سال آج شروع ہوا وہ ہم سب کیلئے خوشگوار ، ترقی سے عبارت، پرامن اور سب سے بڑھ کر آپسی برادرانہ تعلقات، ہمدردی کے جذبات سے سرشار اور خدمت خلق کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی تمام تر نعمتوں اور رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن رہے ۔آمین