جموں/۳۰ دسمبر
سینئر سیاستدان اور نو تشکیل شدہ ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی(ڈی پی اے پی) کے سربراہ‘ غلام نبی آزاد نے آج کہا کہ ان کاکانگریس میں واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے جس کے ساتھ انہوں نے اس سال کے شروع میں اپنی۵۲ سالہ رفاقت کو توڑ دیا تھا۔
تجربہ کار سیاست دان جو سابق مرکزی وزیر اور جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، نے کہا کہ ان کی کانگریس پارٹی میں واپسی کا عندیہ دینے والی خبریں کانگریس کے کچھ مفاد پرست لیڈروں نے پھیلائی ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
آزاد نے کہا’’میں نے کبھی کسی کانگریس لیڈر سے بات نہیں کی اور نہ ہی مجھے کسی نے بلایا ہے۔ تو میں حیران ہوں کہ اس قسم کی کہانیاں میڈیا میں کیوں لگائی جاتی ہیں‘‘۔
ڈی پی اے پی کے سربراہ نے کہا کہ یہ کوششیں کانگریس قائدین نے ان کی پارٹی کے کارکنوں میں غیر یقینی کا احساس پیدا کرنے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو بھی ہو‘ ہم مضبوط ہو کر ابھریں گے۔
آزاد، جنہوں نے راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں، نے کہا کہ میں نے کسی کے ساتھ کیچڑ اچھالنے میں ملوث نہیں ہے۔ مجھے جو کچھ کہنا تھا، میں نے اپنے استعفیٰ میں واضح کر دیا۔ اس کے بعد میں ان لوگوں کی خدمت کیلئے اپنے راستے پر ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا ہے‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ راہول گاندھی کی زیرقیادت بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوں گے جب یہ اگلے ماہ جموں و کشمیر میں داخل ہو گی‘ آزاد نے کہا’’ میرا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ میں اپنے کام میں مصروف ہوں‘‘۔
اس سے پہلے آزاد کا ایک ٹویٹ میں کہنا تھا’’میں کانگریس پارٹی میں دوبارہ شمولیت کے بارے میں اے این آئی کے نمائندے کی طرف سے دائر کی گئی کہانی کو دیکھ کر حیران ہوں۔ بدقسمتی سے اس طرح کی کہانیاں ابھی کانگریس پارٹی کے لیڈروں کے ایک حصے کی طرف سے لگائی جا رہی ہیں اور یہ صرف میرے لیڈروں اور حامیوں کے حوصلے پست کرنے کیلئے کر رہے ہیں‘‘۔
ٹویٹ میں انہوں نے مزید کہا’’میری کانگریس پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف کوئی بری خواہش نہیں ہے، تاہم میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ کہانیاں لگانے والوں کو ایسا کرنے سے باز رکھیں۔ ایک بار پھر میں اصرار کرنا چاہوں گا کہ یہ کہانی مکمل طور پر بے بنیاد ہے۔‘‘
اس سے پہلے ایک خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کی آزاد کی کانگریس میںواپسی پر بات چیت ہو رہی ہے ۔
اس سے پہلے خبر رساں ایجنسی‘اے این آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ کانگریس کے سابق رہنما غلام نبی آزاد کے پارٹی میں واپس آنے کا امکان ہے کیونکہ دونوں کے درمیان بات چیت شروع ہوگئی ہے، ذرائع نے جمعہ کو بتایا۔
آزاد نے ۲۶؍اگست کو کانگریس پارٹی سے اپنی ۵۲ سالہ طویل وابستگی چھوڑ دی اور اکتوبر میں اپنی نئی سیاسی تنظیم ’جمہوری آزاد پارٹی‘ کا اعلان کیا۔
ذرائع کے مطابق گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران آزاد نے کہا تھا کہ صرف کانگریس ہی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس دوران آزاد نے کہا تھا کہ وہ کانگریس کی پالیسی کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کے کمزور نظام سے مسائل ہیں۔
آزاد کے بیان کے بعد، کانگریس کی زیرقیادت بھارت جوڈو یاترا کے کنوینر، دگ وجئے سنگھ نے آزاد کو کھلے عام یاترا کا حصہ بننے کی دعوت دی، جس کے بعد جی۲۳ کے سابق لیڈروں‘ اکھلیش پرساد سنگھ اور بھوپندر سنگھ نے آزاد سے رابطہ کیا اور ان کی کانگریس میں واپسی کی وکالت کرنے کے علاوہ اس یاترا میں شامل ہونے کی وکالت کی۔
اہم بات یہ ہے کہ پارٹی نے حال ہی میں ایم پی اکھلیش پرساد سنگھ کو بہار کانگریس کا صدر بنایا ہے اور بھوپندر سنگھ ہڈا کو ہریانہ کی کانگریس کی کمان سونپی گئی ہے۔
دریں اثنا، جموں و کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تاراچند سمیت بہت سے لیڈر جو کانگریس چھوڑ کر آزاد کے ساتھ چلے گئے تھے‘ نے حال ہی میں مؤخر الذکر کے کیمپ کو بھی چھوڑ دیا۔
ذرائع کے مطابق آزاد کے علاوہ کئی رہنما جموں کشمیر میں بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوں گے۔
اپنے استعفیٰ میں کانگریس کے سابق سربراہ راہول گاندھی پر آزاد کے تیز حملوں کے باوجود، جس نے خاندان کو پریشان کر دیا ہے‘ پارٹی آزاد کو’گھر‘ واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
اس کے لیے اکھلیش پرساد سنگھ اور بھوپندر سنگھ ہڈا، اور امبیکا سونی کو غلام نبی آزاد اور کانگریس کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
امبیکا سونی گاندھی کی پرانی وفادار ہیں جن کے آزاد کے ساتھ اچھے سیاسی تعلقات ہیں۔
اس معاملے سے باخبر لوگوں کے مطابق، امبیکا سونی نے آزاد سے کہا ہے کہ پہلے یاترا میں آئیں اور پھر راہل گاندھی سے بات کریں کیونکہ انہوں نے جاتے وقت ان پر براہ راست حملے کیے تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی کے جموں و کشمیر میں پد یاترا میں شامل ہونے کے اعلان کے باوجود آزاد نے کانگریس کے قومی ترجمان ‘جے رام رمیش کی جانب سے پیدل مارچ میں شرکت کیلئے دیے گئے اشاروں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ابھی تک، آزاد اور کانگریس راہل پر ذاتی حملے کی وجہ سے آمنے سامنے ہیں جو انہوں نے پارٹی چھوڑنے کے دوران کیا تھا، لیکن فی الحال دونوں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔
سونیا گاندھی کو اپنے استعفیٰ کے خط میں آزاد نے پارٹی قیادت بالخصوص راہول گاندھی کو پارٹی چلانے کے طور طریقوں پر نشانہ بنایا تھا ۔
پانچ صفحات پر مشتمل سخت گیر خط میں آزاد نے دعویٰ کیا تھا کہ پارٹی کو ایک گروہ چلاتا ہے جب کہ سونیا گاندھی محض ایک ’’نامزد سربراہ‘‘ ہیں اور تمام بڑے فیصلے ’’راہل گاندھی یا اس سے بھی بدتر ان کے سیکورٹی گارڈز اور پی ایزنے لیے تھے۔
آزاد پہلے راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ کانگریس کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے، آزاد نے کہا تھا کہ پارٹی کی صورت حال اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ’’واپسی نہیں‘‘۔
جہاں آزاد نے خط میں سونیا گاندھی پر طنز کیا، وہیں ان کا سب سے تیز حملہ راہل گاندھی پر کیا گیا اور انہوں نے موصوف کو ایک’غیر سنجیدہ فرد‘ اور ’نادان‘ قرار دیا تھا۔