پاکستان اپنی تاریخ کے ایک اور سنگین آئینی بحران اور سیاسی انارکی سے دوچار ہے۔ حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو غیرآئینی اور غیر جمہوری طریقے کا راستہ اختیار کرکے مسترد کرکے اس کو ناکام بنانے کااعلان اس بات کو واضح کررہاہے کہ پاکستان فی الوقت عمران خان اینڈ کمپنی کی قیادت میں الیکٹورل آمریت سے گذررہاہے۔یہ کہنا مبالغہ نہیں اس نوعیت کی آمریت کی بُنیاد پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے رکھی پھر جنرل یحییٰ خان، پھر اس کے جانشین جنرل ضیاء الحق اور رہی سہی کسر جنرل پرویز مشرف نے پوری کی۔
ان فوجی آمروں کے اقتدارپر ایک کے بعد ایک کے قبضے نے پاکستان میں جمہوریت کو نہ پنپنے دیا اور نہ ہی کوئی طاقتور جمہوری ادارہ کا ہی قیام آج تک ممکن ہوسکا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کا الیکشن کمیشن اور وقتاً فوقتاً جوڈیشری کا ایک مخصوص سیاسی اور غیر جمہوری اندازفکر رکھنے والا حصہ ان غیر آئینی اور غیر جمہوری آمروں کے رکھیل کا ہی کرداراداکرتارہا۔
پاکستان کے آئینی اور قانونی ماہرین، سیاسی تجزیہ کار، آزاد خیال میڈیا اور سنجیدہ فکر حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے نہ صرف آئین کے تقدس کو پامال کردیا، بلکہ جمہوری طرزعمل کی رہی سہی بُنیادوں تک کو بھی تہہ وبالا کرکے رکھدیا ہے۔ غیر ملکی سازش ، پھر قتل کے مفروضے ، پھر اپوزیشن کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا اور پھر لوگوں کو تشدد کیلئے گھروں سے باہر آکر اپنی جماعت کے منحرف ارکان پارلیمنٹ کے گھروں کونشانہ بناکر ان کے خلاف غدارانہ نعرے بازی وغیرہ کے بیانات ایک ایسے جنونی آمر کی طرف اشارہ کررہے ہیں جو سیاست کی اب ج د سے آشنا نہیں، غالباً عمران کی انہی حرکتوں اور نریٹو کو سامنے رکھ کر پاکستان کی سرکردہ خاتون مصنف عائشہ صدیقہ یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ ’عمران خان سیاست کارنہیں ہیں جبکہ ان کے حامی (اشارہ عوام کی طرف ہے ) معمولی سیاسی سوچ بھی نہیں رکھتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں عائشہ نے عمران خان کو غیر سیاسی مطلق العنان اور ان کے حامیوں کو شعور سے بالا غنڈے قراردیا ہے۔
ویسے بھی پاکستان کی تاریخ ایسے معاملات کے تعلق سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کی کسی سویلین حکومت نے اپنی معیاد پوری نہیں کی۔ یا تو سربراہاں مملکت کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے قتل کردیاگیا، یا جلاوطن کردیایاکسی اور مفروضے مثلاً کورپشن یا آئینی بحران کے ٹھپے چسپاں کرکے معزول کیاجاتارہا۔ برسراقتدار حکومتوں کو برطرف کرنے یا من پسند سیاستدانوں کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانے کیلئے آج تک پاکستان آرمی کو ذمہ دار قرار دیا جاتارہا۔ یہ بھی تلخ سچ ہے کہ پاکستان آرمی نے ۲۰۱۸ء کے الیکشن میں پھیر بدل کرکے اپنے وقت کے چہیتے عمران خان کو اقتدار پر بٹھادیا لیکن داخلی اور خارجی سطح پر ملکی مفادات کو پامال ہوتے دیکھ اور دوسرے معاملات کا بوجھ نہ سہ کر اب کی بار آمی نے غیر جانبداررہنے کا راستہ اختیارکیا۔ آرمی کی اسی غیر جانبداری کو عمران خان نے ’جانور‘ کے خطاب سے نوازا۔
حکومت اور اس کے ذمہ دار وزیروں نے اپنے اقتدار کو غیر آئینی اور غیر جمہوری تحفظ فراہم کرنے کیلئے حالیہ مہینوں کے دوران جتنے بھی نریٹو اختراع کئے وہ ایک ایک کرکے زمین بوس تو ہوتے گئے لیکن بے شرمی کی تمام تر حدود کو پھلانگتے ہوئے وہ خود کو دودھ کا دھلا ہی جتلاتے رہے۔ جس ملک کا سربراہ خود بدزبان ہو، اپنے مخالفین کے خلاف ہزیانی کیفیت میں مبتلا ہو، جس کو خود آئین اور اخلاق کا کوئی پاس لحاظ نہ ہو، اور جس کے ’’نورتن‘‘ انتہائی درجے کے بدتمیز، بداخلاق، بے شرم، اعلیٰ درجے کے کورپٹ، بدزبان، اس حکومت سے یہ توقع کیسے ممکن ہے کہ وہ ملک اور ملکی عوام کی ترقی، اور معاشرتی آداب کی پاسداری کو یقینی بناسکے۔ اس انداز فکر اور طرزعمل کے حامل لوگوں کو سماج میں ’گرہ گٹ‘، ابن الوقت اور لٹیرے ہی تصور کیاجاتا ہے۔
نہ صرف داخلی محاذ پر پے درپے ناکامیوں سے دوچار ہوتا رہا بلکہ خارجہ پالیسی کے تعلق سے بھی عمران کی حکومت کو مسلسل ہزیمتوں ، شکستوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے قریب اور دوستوں کی صف میں شمار ہونے والے ممالک ایک ایک کرکے راستہ سے ہٹے گئے، چین بھی ناراض ہوا اور امریکہ اور اس کی قیادت میں اس کے اتحادی اور یوروپی بلاک نے بھی پاکستان سے دوری اختیار کرلی۔ یوکرین پر روسی جارحیت کی درپردہ حمایت نے رہی سہی ناکام خارجہ پالیسی کی کمر توڑ کے رکھدی۔
افغان طالبان کی وکالت کاٹھیکہ اپنے نام الاٹ کرکے عمران خان نے اپنے ہی ملک کے لئے مزید مشکلات کو جنم دیا۔ افغانستان کے تعلق سے اس کے ہمسایے جو خدشات اور تحفظات پال رہے ہیں ان کا احساس اور احترام کئے بغیر عمران اپنی پسند کی ون ٹریک ڈپلومیسی پر گامزن رہا۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی بجائے ان تعلقات کو بگاڑتا ہی رہا۔ حالانکہ اس کے اپنے آرمی چیف نے ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتربنانے اور باہم تعاون اور اشتراک سے عبارت راستے پر گامزن کرنے کیلئے ’ماضی کی تلخیوں اورکشیدہ ابواب‘ کو بند کرکے حاشیہ پر رکھنے کی تجویز کو بھی ہندوستان کے سربراہ مملکت کے نام اپنی بدزبانی کے سہارے ناکام بنادیا۔
عین اس وقت جب عمران اپنے اور اپنی حکومت کے خلاف مبینہ غیر ملکی (امریکی) سازش کا فسانہ قدم قدم پر پیش کرتے رہے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ عالمی برادری کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کا ملک عالمی سطح پر ہر ملک کے ساتھ بہتر اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں جبکہ وہ اپنے ملک کو کسی خاص ملک کی کمپنی میں رہنے کا خواہاں نہیں ہے۔ آرمی چیف کا یہ بیان شاید اس تناظرمیں بھی سامنے آرہا ہو کہ آرمی کو ماضی کے اپنے سیاسی اور مداخلتی کردار کی حماقتوں اور بین الاقوامی سطح پر اس کے منفی ردعمل سے مسلسل جو زچ اُٹھانی پڑرہی ہے اس کی شدت اور اثرات کو کم کرنے کی ایک دانستہ کوشش سے بھی ہوسکتاہے۔
بہرحال فی الوقت زمینی سطح پر صورتحال یہ ہے کہ عمران خان پاکستان میں ایک مکمل آمر اور مطلق العنان کے روپ میں اُبھر کرجلوہ گرہے جس آمریت اور مطلق العنانیت سے عبارت صدر پاکستان اور تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ کچھ لوگ تقویت پہنچانے میں اہم کرداراداکررہے ہیں۔