افغانستان فی الوقت طالبان کی حکمرانی کے دور میں ایک بار پھر دہشت گردی کے ایک بڑے مرکز کے طور پر اُبھر رہا ہے ۔ نہ صرف طالبان سے ماضی میں وابستہ کچھ مسلح دھڑے علیحدگی کے بعد اپنا دبدبہ قائم کرنے پر کمربستہ ہیں بلکہ داعش سے وفاداری جتلانے والے بہت سارے مسلح دہشت گرد بھی اپنا دبدبہ قائم کرنے اور اپنا اثررسوخ بڑھانے کیلئے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ ادھر پاکستان کے ساتھ افغان سرحدیں بھی خاموش نہیں اور وقفے وقفے سے دونوں ملکوں کے درمیان کئی سرحدی علاقوں میںمسلح جھڑپیں ہوتی رہتی ہیںجو دونوں اطراف سے جان ومال کے اتلاف کا موجب بن رہی ہیں۔
اگر چہ طالبان قیادت نے ملک کے بہت سارے علاقوں میں مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے لیکن عوامی سطح پرانہیں ابھی مزاحمت کا سامنا ہے۔ طالبان مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق معاشرے کو پروان چڑھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن مقتدر علماء اس دعویٰ کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ ان علماء کا کہنا ہے کہ افغانستان کی خواتین کی ۹۹؍ فیصد باپردہ ہیں لیکن اس کے باوجود ان خواتین کو ہراسان کیاجارہاہے، سرعام کوڑے برسائے جارہے ہیں، انہیں گھروں کی چار دیواری میں مقید رکھاجارہاہے، روزگار ان سے چھین لیاگیاہے ، تعلیم وتربیت کا حصول ان کیلئے شجر ممنوعہ ٹھہرایا جارہا ہے۔
خواتین کے ساتھ یہ سلوک بربریت سے عبارت ہے اور کوئی بھی مہذب اور شائستہ معاشرہ یا نظام اس کو پسند نہیں کرتا۔ خود شریعت میںخواتین کے بارے میں کیاکچھ ہے یہ محتاج وضاحت نہیں باالخصوص ان لوگوں کے لئے جو اسلام کا پیروکار ہونے اور شریعت پر مبنی نظام حکومت کی تشکیل وقیام کے خواہاں ہونے کا دعویٰ کررہے ہوں۔ بے شک پردہ لازم ہے جبکہ پردہ کے بارے میں یہ کس طرح اور طرز کا ہونا چاہئے،شریعت کے حوالہ سے زرہ بھر بھی ابہام نہیں ہے لیکن اس کے باوجود طالبان حکمران اور ان سے وابستہ مسلح افراد افغان خواتین کو اپنی عملی دہشت گردی اور بربریت کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
خواتین کے ساتھ یہ شرمناک اور ازیت سے عبارت سلوک بین الاقوامی سطح پر غیر انسانی اور شریعت کے منافی تصور کیاجارہاہے جس کا ردعمل یہ بھی سامنے آرہاہے کہ بین الاقوامی سطح پر طالبان کی حکومت کو نہ کسی نے ابھی تک تسلیم کیا او رنہ ہی کسی ملک نے ابھی تک طالبان کے ساتھ کوئی تعلق ہی قائم کیا ۔
جہاں افغانستان میں باپردہ خواتین کو سرکاری ظلم اور کوڑے برسائے جارہے ہیں وہیں اس کی ہمسائیگی میں ایران میں موجودہ حکمرانوں کی قیادت اور سرپرستی میں قائم مارل پولیس دستے بے پردہ خواتین کو یہ کہکر لہولہان کرتے جارہی ہے کہ وہ پردہ کریں۔ پردہ کے حوالہ سے یہ اُس مخصوص خطے میں دو ہمسایہ ملکوں کے حکمرانوں کے دو گہرے تضادات سامنے ہیں۔اس تضاد نے عالمی سطح پر اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کے ایک نئے دور کا آغاز کردیا ہے۔ لوگ سوال کررہے ہیں کہ ایک حکومت جو خود کو شریعت کی علمبردار قرار دے رہی ہے باپردہ خواتین پر کوڑے برسارہی ہے جبکہ دوسری حکومت جس کی قیادت اور سرپرستی اُس ملک کی مذہبی شخصیات کے ہاتھ میں ہے بے پردہ خواتین کو اس لئے نشانہ بنارہی ہے کہ وہ پردہ نہیں کررہی ہے۔ کیا پردہ کا اطلاق تشدد اور ازیت رسانی کے بغیر ممکن نہیں جبکہ اس کیلئے تشدد کا راستہ یا طریقہ کار روا رکھنے کا کوئی بھی جواز شریعت میں نہیں ہے۔
یہ دونوں حکومتیں اسلام کو بدنام کرنے پر تلی ہوئی ہیں جبکہ ان دونوں کی سوچ ، طرزعمل اور اپروچ یا نظریہ فکری دہشت گردی اور بربریت پر مبنی نظام کے جنم کا موجب بن سکتا ہے حیا ء اور شرافت کے ساتھ پاکیزگی ، زہد وتقویٰ ایمان کا جز ہے اور پردہ خواتین ومرد دونوں کے حوالہ سے نصف ایمان کے برابر ہے۔ لیکن اگر کوئی عورت پر دہ نہیں کرنا چاہتی تو یہ اسکی اپنی مرضی اور چاہت ہے۔ سٹیٹ کا اس میں کوئی رول یا عمل دخل نہیں۔ البتہ گھر اور خاندان کے بڑوں کی اس حوالہ سے کچھ ذمہ داریاں ہیں جن کی ادائیگی اور تکمیل کی سمت میں ان سے کچھ تقاضے ضرور ہیں۔ لیکن اگر گھر اور خاندان کے بڑ ے ہی اس تعلق سے اپنی کوئی ذمہ داری نہ سمجھتے ہوں، یا اپنے گھروں کی خواتین کے باپردہ ہونے کے لئے اپنی مداخلت کو ضروری بھی نہ سمجھتے ہوں تو معاملہ دوسرا بن جاتا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی اسلام پردہ کا حکم دیتا ہے، مردوں کیلئے بھی مخصوص پردہ کا حکم ہے اور عورتوں کیلئے بھی مخصوص پردہ کا حکم ہے۔
بدقسمتی کہے یا المیہ طالبان کی قیادت عورتوں کی تنگ طلبی اور ہراسانی میں برابر اُس دن سے ہے جس دن انہیں افغانستان کی حاکمیت ملی۔ جبکہ طالبان کے افغانستان کیلئے لازمی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے اڑوں سے خالی کرائے، غیرملکی دہشت گرد جو ملک میں پناہ گزین ہیں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں کا قلع قمع کرنے کی سمت میں اقدامات کرے، اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دوطرفہ اور باہمی دلچسپی او مفادات پر مبنی دوستانہ اور خیر سگالانہ تعلقات قائم کرے،اپنی سرحدوں کو مضبوط اور مستحکم بنائے، ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرکے مضبوط بنانے کیلئے وہ سارے اقدامات کرے جو ناگزیر ہیں اور اس مقصد کیلئے عالمی برادری سے تعاون اور اشتراک طلب کرے لیکن طالبان کی قیادت کچھ اور ہی راستوں پر گامزن نظرآرہی ہے۔
طالبان کی قیادت اپنے اسی انداز فکر اور طرزعمل کو مستقل طور سے اپنی پالیسی اورمنشور کا حصہ بنانے پر بضد رہی تو خود آنے والے وقتوں میں اس کیلئے بہت ساری مشکلات پیدا ہوسکتی ہے۔ چین، پاکستان ، روس، ہندوستان ، ایران وغیرہ خطے میں اس کی ہمسائیگی میںموجود ہیں جبکہ کم وبیش ان سبھی ممالک کے کسی نہ کسی حوالہ سے اپنے اپنے مفادات افغانستان سے وابستہ ہیں۔ لیکن ان سبھی ممالک کے ساتھ دوستانہ اور آپسی اشتراک پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی بجائے افغانستان میں ان میں سے کبھی ایک تو کبھی دوسرے کے مفادات کو نشانہ بناکر نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان غیر افغانی مفادات کو نشانہ بنانے والے خود طالبان ہیں یا طالبان سے علیحدگی اختیارکرنے والے دھڑے یا غیر ملکی دہشت گرد تنظیم داعش ہے اس بارے میں اہم ترین ذمہ داری خود طالبان قیادت کی ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کرے۔
کابل میں ابھی چند روز قبل چینی باشندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش اور پاکستان کی سرحد پر چمن کے علاقے میں جنگ کی سی صورتحال اور واقعات نئے خطرات کی گھنٹی کے سوا اور کچھ نہیں۔ امریکہ افغانستان کی اس صورتحال کے تعلق سے حالیہ کچھ دنوں میں ایک سے زائد بار اپنا ردعمل اور ناپسندیدگی کو زبان دے چکا ہے اور تازہ ترین ردعمل میں طالبان کو وارننگ دی ہے کہ وہ دہشت گردانہ سرگرمیوں سے اجتناب کرے اور واضح کیا ہے کہ اگر ایسا نہ کیاگیا تو امریکہ کارروائی کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔