تحریر:ہارون رشید
سچ پو چھئے تو ہمیں ڈر لگ رہا ہے … جی ہاں ڈر‘ اس بات کا ڈر کہ … کہ کہیں نظر نہ لگ جائے ۔وہ کیا ہے کہ سیاح اتنی تعداد میں ملک کشمیر آ رہے ہیں کہ ہم ڈر رہے ہیں کہ کہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے ۔وہ کیا ہے کہ ماضی میں بھی سیاح آتے تھے… ہول سیل میں آجاتے تھے ‘ لیکن پھر کسی کی نظر لگ جاتی تھی … اور سیاحوں کی آمد پر روک لگ جاتی ۔ اللہ میاں سے دعا ہے کہ اب کی بار ایسا نہ ہو … کسی کی نظر نہ لگ جائے اور… اور سیاحوں کی آمد … ہول سیل میں آمد اسی طرح جاری و ساری رہے … کہ سیاحوں کی آمد سے ملک کشمیر کی رونقیں تو بڑھ ہی جاتی ہیں… لیکن ساتھ میں ملک کشمیر میں لوگ دو چار پیسے بھی کما لیتے ہیں کہ … کہ ملک کشمیر کی معیشت کا سیاحت کے ساتھ بھی تعلق ہے… بڑا تعلق ہے اور… اور اس لئے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ اس شعبہ کے ساتھ جڑا ہے … جنہوں نے ماضی میں برا نہیں بلکہ بہت برا وقت بھی دیکھا ہے… جنہوں نے بینک سے قرضہ جات لئے ہیں… جنہوں نے سرکاری نوکری کا انتظار نہ کرکے خود اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی روز گار مہیا کیا ۔سیاحوں کی آمد کا ایک اور مثبت پہلو بھی ہے …بہت مثبت پہلو اور… اور وہ یہ ہے یہاں آکر انہیں ملک کشمیر اور کشمیریوں کو جاننے کا موقع ملتاہے … اُس کشمیر کو جاننے کا موقع‘ان کشمیریوں کو جاننے کا موقع جن کے بارے میں گزشتہ تیس برسوں سے انہوں نے پتہ نہیں کیا کیا سن رکھا ہو تا ہے …سیاحوں کی آمد رشتے استوار کرنے کا ایک موقع ہے… اور یہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے۔اس لئے صاحب سیاح ملک آئیں ‘ ہول سیل میں آئیں‘ یہاں پر اللہ میاں نے ہول سیل میں خوبصورت مناظر دیکھنے کو رکھے ہیں… ان مناظر سے سیاح محظوظ ہوں…ہنسی خوشی آئیں اور… اور میٹھی و شیرین یادیں لے کر واپس جائیں …اور جاتے جاتے یہ دعا ضرور کرتے جائیں کہ … کہ سیاحوں کی آمد کا سلسلہ یونہی برقرار رہے… اس میں اضافہ ہی ہو ‘ کمی نہیں اور… اورہاں یہ دعا بھی کہ اب کی بار کسی کی نظر نہ لگ جائے … کسی کی بھی نہیں ۔ ہے نا؟