مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک بار پھرا س بات کو واضح کیا ہے کہ حدبندی کے بعد اسمبلی انتخابات ہوں گے جس کے بعد ریاستی درجہ بحال ہوگا۔ پارلیمنٹ میں اگلے روز اپوزیشن کے بعض خدشات کے جواب میں وزیرداخلہ کاکہنا تھا کہ ’ہم صدر راج کے مسلسل نفاذ کے حق میں نہیں ہیں‘۔ انتخابی عمل کے حوالہ سے جموںوکشمیرکی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا بھی عندیہ دیا۔
حدبندی عمل اپنے آخری مرحلہ میں ہے۔ اگر چہ مختلف سیاسی پارٹیوں، بعض عوامی حلقوں اور دوسرے سٹیک ہولڈروں کی طرف سے حد بندی سفارشات پر منفی ردعمل سامنے آرہاہے جبکہ کچھ ایک نے حد بندی کمیشن کی ’نیت‘ پر اپنے تحفظات کو بھی زبان دی ہے لیکن حد بندی کمیشن ان سبھی تحفظات اور خدشات کو بلاجواز ٹھہراتا رہاہے۔ اس حوالہ سے اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے کہ حدبندی کے حوالہ سے ساری عمل کو سیاسی اہداف اور سیاسی نظریات سے وابستہ کیاجارہا ہے جبکہ ہرسیاسی پارٹی حد بندی کو اپنے مخصوص عینک اور مفادات سے ہی دیکھ رہی ہے۔
بہرحال جو کچھ بھی اس تعلق سے اب تک کہاگیا، دعویٰ کئے جاتے رہے ، تحفظات اور خدشات پیش کئے جاتے رہے ان سے قطع نظریہ عمل اب اپنے آخری مرحلہ میںداخل ہوچکی ہے اور کسی بھی وقت باقی ماندہ لوازمات کی تکمیل کے ساتھ ہی اس عمل پر حتمی مہر ثبت کی جاسکتی ہے۔ بھلے ہی ابھی سرکار ی طور سے انتخابات کا اعلان نہیں کیاگیاہے لیکن کم وبیش ہر پارٹی نے خود کو ’الیکشن موڈ‘ میں ڈالدیا ہے۔ پارٹی ورکروں کی میٹنگوں کے ساتھ ساتھ عوامی رابطوں میںبھی شدت لائی جارہی ہے جبکہ رائے دہندگان کو لبھانے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کی غرض سے مختلف تحریکوں اور ترغیبات کا بھی سہارا لیاجارہاہے۔
کوئی بجلی کے ۸۰۰؍ یونٹ مفت سپلائی کرنے کا اعلان کرتا نظرآرہا ہے تو کوئی برسراقتدار آنے پر دربارمو کی بحالی کا مژدہ سنارہاہے۔ کوئی اسمبلی کی وساطت سے قراردادپیش کرکے خصوصی پوزیشن کی بحالی کا وعدہ کررہاہے تو کوئی سرکاری وغیر سرکاری شعبوں میں ملازمتوں کو مقامی شہریوں کیلئے مخصوص کرنے اور زمین کی سو فیصد ملکیت کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ دے رہاہے۔
ان وعدوں کی تکمیل اور ایفاء کے حوالہ سے قبل از وقت تو کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے کیونکہ ابھی دلی دور اس کے مصداق اسمبلی الیکشن محتاط اندازوں کے مطابق کم سے کم چھ ماہ کے فاصلے پر ہیں، اُن آنے والے چھ مہینوں میںجموںوکشمیر میںزمینی سطح پر کس نوعیت کی تبدیلیاں ہوں گی ان تبدیلیوں اور حکومتی اقدامات کی گہری چھاپ یقینی طور سے الیکشن نتائج پر مرتب ہوگی۔
البتہ اب جبکہ مرکزی سطح پر الیکشن کے بارے میں اور ریاستی درجہ کی بحالی کے تعلق سے واضح روڑ میپ سامنے لایاگیاہے۔ الیکشن عمل میں جو بھی لنگر لنگوٹے کس کر میدان میںاُترنے کا خواہوں ہوگا، چاہئے اس کا تعلق کس سیاسی پارٹی سے ہو، آزاد حیثیت ہو یا درپردہ اُمیدوارہو، اپنے بارے میں شبیہ کو تمام تر ’ناپاکیوں‘ اگر کچھ ہے، سے پاک وصاف کرے۔ عوام کااعتما دحاصل کرے اور انہیں جن مسائل کا سامنا ہے ان کے حل کے لئے واضح روڑ میپ ان کے سامنے پیش کرے۔
سستی اور جذباتی نعرہ بازی اب تک بہت دیکھی، سنی اور سہی جاچکی ہے، اب اور نہیں!جموں وکشمیر کے لوگ تبدیلیوں کے تعلق سے نتیجہ خیز عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ عملی اور نتیجہ خیز اقدامات اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جب امن کو مستحکم بنایاجائے، آبادی کے ہر ایک طبقہ کا اشتراک اور تعاون حاصل کیاجائے، شرانگیزی اور شرپسندی کا قلع قمع کرنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کاراستہ اپنایا جائے، کسی بھی طرح کی معاندانہ سیاست اور منفی اندازفکر وطرزعمل کیلئے اب معاشرتی سطح پر بھی کوئی جگہ دستیاب نہیں ہونی چاہئے۔ انتقام سے عبارت جذبات اور سوچ کو قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں کی نذر کرکے اشتراک عمل اورتعاون کے ساتھ باہمی مفاہمت یا دوسرے الفاظ میں بقائے باہم کے نظریہ کو تقویت پہنچائی جاسکتی ہے۔
جمہوریت میںغیر متزلزل یقین اور آئین وقانون کی بالادستی تمام تر ازموں پر مقدم ہوجبکہ یہی وہ نظریہ اور راستہ ہے جو ترقی اور فارغ البالی کی راہیں ہموار کرنے میںکلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔انتخابی عمل میں علاقہ پرستی، مذہبی عقیدوں اور جذباتی قلعوں کی تعمیر کیلئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ اس تعلق سے ماضی کے حوالہ سے یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات میں فراڈ اور دھاندلیوں نے بھی جموں وکشمیرمیںسیاسی عدم استحکام اور بے چینی کو پیدا کرنے میں اہم ترین کردار اداکیاہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان انتخابات کے شرکاء آج کی تاریخ میں ان انتخابی دھاندلیوں اور فراڈ سے انکار کررہے ہیں لیکن تاریخی حقیقت یہی ہے جس کا عتراف ساراملک کرچکا ہے کہ جموںوکشمیر میںگذری دہائیوں کے دوران جنتے بھی الیکشن ہو ئے ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کا سہارالیاگیا ماسوائے اُس ایک الیکشن کے جس کا انعقادوزیراعظم مرحوم مرارجی ڈیسائی کے دوراقتدارمیں ۱۹۷۷ء میںہوا۔
جمہوریت پر عوام کے متزلزل یقین اور اعتماد کو بحال کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ جب بھی الیکشن ہوں گے وہ صاف ستھرے ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں۔ان کے انعقاد میں کسی بھی نوعیت کے کسی بھی ازم کا زرہ بھر بھی عمل دخل نہ ہو۔ بالکل اُسی انداز، اسی طریقہ اور اُسی منصفانہ طریقے سے جو طریقہ کار پورے ملک میںرائج ہے اور جس کے بارے میں کوئی زبان شاکی نہیں ہے۔
سنجیدہ فکر اور حساس عوامی حلقے سیاسی جماعتوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اب اپنے اپنے اختراعی جذباتی نعروں کے خول سے باہر آجائیں گے اور عوام کو درپیش مشکلات اورمسائل کا احساس کرکے ذمہ دارانہ کردار اداکرنے کیلئے خود کو اُسی سانچے میں ڈال کر ان کو حل کرنے کیلئے خود کو وقف کریں گے۔جہاںتک مالیات کاتعلق ہے تو اس شعبے میںحالیہ برسوں میں نمایاں بہتری آئی ہے اور یہ بہتر ی تقریباً ہر ایک شعبے کے حوالہ سے نظربھی آرہی ہے۔ محصولیات کی وصولیابی میںبھی نمایاں بہتری ریکارڈ کی گئی ہے لہٰذا آنے والے کل کو جو بھی اقتدار میںآجائے اس کیلئے مالیات کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔