حکمران جماعت بی جے پی کی کانگریس مکت ہندوستان کا نعرہ آہستہ آہستہ نہیں بلکہ بڑی تیزی کے ساتھ حقیقت میں بدلتا نظرآرہاہے۔ اگر چہ کانگریس کی قیادت میں ابھی چند ہی روز گذرے تبدیلی لائی گئی ہے لیکن اس تبدیلی کا زمینی سطح پر کسی بھی اعتبار سے ذرہ بھر بھی کوئی بدلائو یا اثر نہیں دیکھا جارہاہے۔
اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ کانگریس کی سوچ او راپروچ میں ’وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘۔ کانگریس کی سوچ اور اپروچ میں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کی قیادت میں جو مخصوص طرزعمل تسلسل کے ساتھ رہا وہ تسلسل اب نئے صدر مالیکار جن کھڑگے کی قیادت میں کانگریس ہائی کمان کو منتقل ہوا ہے ۔سیاست میں مناسب لچک، معاملات باالخصوص تنقید کے تعلق سے توازن اور اشو کی بُنیاد پر ردعمل کو طاق پر رکھتے ہوئے کانگریس اپنی اپوزیشن کا کردار حکومت کی تنقید کرنے، اُسے آڑے ہاتھوں لینے یا پالیسی پروگراموں کے حوالہ سے زمینی حقائق کی روشنی میں ٹارگٹ کرنے کی بجائے حکومتی سربراہ وزیراعظم نریندر مودی کی ذات کو بنا رہی ہے۔
بقول سونیا گاندھی کے کبھی ’موت کا سوداگر‘ اور اب کھڑگے کے بقول ’راون‘ قراردینے کی کوشش کئی اعتبار سے بھونڈی بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی کی ذات، شخصیت اور سیاست میں ان کے کردار کونشانہ بنانے اور کردارکشی کی کوشش اب کی بار پہلی مرتبہ نہیں ہوئی بلکہ جب جب بھی الیکشن کی گہما گہمی کسی ریاست میں ہوئی تو کانگریس وزیراعظم کی ذات کو نشانہ بنانے کی راست کوشش کرتی رہی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ماضی قریب میں ایسی ہر کوشش کا ردعمل پارٹی کے مجموعی مفادات کے حوالہ سے مثبت سامنے نہیں آتارہا بلکہ رائے دہندگان کانگریس کی اس کردارکشی کے ردعمل میں اور زیادہ مودی کے قریب اور ان کے نظریات سے ہم آہنگ ہوتے جارہے ہیں لیکن کانگریس قیادت اپنے اس مخصوص اندازفکر اور اپروچ کے منفی راستے سے قدم روکنے اور واپسی کیلئے تیار نہیں۔
کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کی جانب سے کانگریس کی ماضی کی لیڈر شپ اور تقسیم برصغیر کے بعد تشکیل حکومت آئین سازی، پالیسی پلاننگ ،حکمت عملیوں، فیصلہ سازی وغیرہ کولے کر راست تنقید کا نشانہ بنارہی ہے جس کے ردعمل میںکانگریس جو ابی وارکرنے پر مجبور ہوجاتی ہے لیکن اس جوابی وار کانشانہ نریندرمودی کی ذات کو بنانا دانشمندی کا تقاضہ نہیں۔
صحیح معنون میں اپوزیشن کا کردار اشوز کی بُنیاد پر ہونا چاہئے لیکن اگر تنقید ، مخالفت برائے مخالفت اور ذات اور شخصیت کے محور گھمادی جائے تو اپوزیشن اپنے اس مخصوص کردار سے محروم ہوجاتی ہے اور اس کے اندر اپوزیشن کا دم باقی نہیں رہتا کیونکہ حملہ کی زدمیں آنے والے بھی پھر جوابی وارکے حوالہ سے ذات ،شخصیت اور انفرادی کردارکے حوالہ سے معاملات کو ایڈریس کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ راہل گاندھی نے اس سیاسی روڑ میپ کی بُنیاد رکھی اور اب پارٹی کے دوسرے لیڈر بھی اسی روڑمیپ پر گامزن نظرآرہے ہیں۔ اس روڑ میپ ہی کو اپنے سیاسی نظریہ اور اساس قراردیئے جانے کا نتیجہ یہ برآمد ہورہاہے کہ الیکٹورل پراسیس کے حوالہ سے کانگریس ہر محاذ اور ہر جگہ سے شکست سے دوچار ہورہی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ ریاستوں کی حکمرانی سے بھی بے دخل ہوتی جارہی ہے۔ جبکہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ اپوزیشن کا ایک مشترکہ مگر متحد محاذ بنانے میں بھی یہ پارٹی بچھڑ رہی ہے۔
پارٹی کے اندر کچھ سینئر ترین لیڈروںنے اس نوعیت کے کردار کے حوالہ سے سوال کیا، اس کی معقولیت اور مقصدیت کو لے کر بحث چھیڑ دی تو انہیں ایک ایک کرکے پارٹی کے فیصلہ ساز اداروں اور دوسرے امورات سے گندی مچھلی کی طرح باہر کردیاگیا، لوگوں کا ایک ایسا گروپ پارٹی کے اندر اُبھر ا جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ گروپ ابن الوقتوں ، خوشامدیوں اور چاپلوسوں کا ہے ، سیاست میں انہیں کوئی مہارت اور تجربہ نہیں ، بس ان کی حیثیت محض اندھے بھگتوں کی سی ہے۔
مثل مشہور ہے کہ جس کا خود اپنا دُشمن ہو اُسے دوسرے دُشمنوں کی ضرورت ہی کیا، گھر کے اندر کانگریس کے کئی دُشمن ہیں، یہ دُشمنی پارٹی کے اندر موجودہے، انداز فکر کی صورت میں ہے، طرزعمل کے حوالہ سے ہے، غیر پختہ سیاسی شعور اور معاملات کے تعلق سے عدم فہمی سے وابستہ ہے یا یہ بھی ہوسکتاہے کہ پارٹی کے اندر کچھ لوگ اس ذہن کے بھی ہوں کہ چونکہ ماضی میں پارٹی کا پلہ زندگی کے ہر شعبے کے حوالہ سے بھاری رہا ہے، کئی دہائیوں تک بلاشرکت غیرے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں، تعلق گرینڈ اولڈ پارٹی سے ہے لہٰذا اب کیوں سیڑھی کے ان زینوں سے نیچے اُترا جائے، یہ اندازفکر متکبرانہ ، تحکمامہ اور سب سے بڑھ کر ماضی کی قید میں ہی مستقبل کا قیدی بنے رہنے کی بھونڈی سوچ کا واضح مظہر ہے۔
غالباً یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ کچھ حلقوں کی طرف سے کانگریس قیادت کو بار بار یہ مشورہ دیاجارہاہے کہ وہ ’بھارت جوڑو‘ کی بجائے ’کانگریس جوڈو‘ کی یاترا کا اہتمام کریں۔ جہاں تک حکومت کی مخالفت کا معاملہ ہے تو پارٹی کو یہ جمہوری حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اپوزیشن کا کرداراداکرے لیکن اپوزیشن کا صحیح معنوں میں کردار نبھانے کیلئے ایک ٹھوس اور مثبت مگر جامع حکمت عملی اور اپروچ کی ضرورت ہے البتہ اس کے برعکس اگر وزیراعظم کی ذات کولے کر اپوزیشن کا رول اداکرنے کو اسی طرح ترجیح دی جاتی رہی جس انداز اور طرز سے گذشتہ ۸؍ سال سے دی جارہی ہے تو اس سے کانگریس کا احیاء ممکن نہیں۔