سرینگر//
وادی کشمیر کی شہرہ آفاق دستکاریاں بھی جدید ٹیکنالوجی کی آمد کی یلغار کے باعث صفحہ ہستی سے معدوم ہو رہی ہیں اور ان کے ساتھ وابستہ دستکار بھی دوسرے شعبوں کو اختیار کرکے اپنی روزی روٹی کی سبیل کر رہے ہیں۔
تاہم سرینگر کے جوگی ون امدا کدل سے تعلق رکھنے والے حاجی غلام رسول خان کشمیری دستکاری کو زندہ رکھنے کیلئے برسوں سے محو جد وجہد ہیں۔ انہوں نے نہ صرف خود میدان میں اتر کر شال بافی کے ایک پرانے نادر نمونے کو ناپید ہونے سے بچایا بلکہ وہ اس ہنر کو زندہ رکھنے اور آئندہ نسلوں تک پہنچانے کیلئے مسلسل ارباب اقتدار کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔
خان نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران کے کہا کہ شال بافی کے کام میں ایک ویژن کا ہونا لازمی ہے اور یہی ویژن مختلف قسموں کی نقش و نگاری معرض وجود میں لانے کیلئے مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔
دستکار نے کہا’’جو شال جس کو ہم پیچ ورک شال کہتے ہیں،سات سو برس قبل حضرت امیر کبیرؒ کے زمانے میں تیار کیا جاتا تھا بعض کاریگر ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک ویژن دیا ہوتا ہے یہی ویژن کام کرتا ہے ‘‘۔
خان نے کہا’’اس زمانے کے بعد کوئی کاریگر یہ شال نہیں بنا سکا، اس کے متعلق اب صرف کتابوں میں پڑھا جا سکتا تھا پھر سال۲۰۰۰میں مرکزی ہیندی کرافٹ کی ایک ٹیم اس شال کے متعلق تحقیقات کرنے کے دوران یہاں پہنچے ‘‘۔
ماہردستکار کا کہنا ہے کہ انہوں نے ۲۰۰۱۔۲۰۰۲میں اس نوعیت کا پہلا شال تیار کیا ۔خان نے کہا’’در اصل میں نے سال۱۹۷۳میں دلی میں اپنے والد کے کارخانے میں اس قسم کے شال دیکھے تھے اور پہلی ہی نظر میں ان شالوں نے مجھے اپنی طرف اس قدر کھینچ لیا کہ ان کا نقش میرے ذہن میں محفوظ ہو گیا‘‘۔
خان کا کہنا تھا’’سال۱۹۹۰مجھے دلی میں ایک حادثہ پیش آیا اس شال کا نقشہ میرے ذہن میں تھا اورر پھر میں کام شروع کیا اور بالآخر میں نے یہ پرانا شال تیار کیا‘‘۔انہوں نے کہا کہ جس طرح قالین بافی کیلئے ایک ’تعلیم‘ ہوتی ہے اس کے برعکس شال بنانے کیلئے کسی قسم کی کوئی تعلیم نہیں ہوتی ہے ۔
دستکار نے کہا کہ انہوں نے پہلا شال۶۴ ٹکڑوں کا بنایا جبکہ اس کے بعد میں نے دوسرا شال۳۶۰ ٹکڑوں کا تیار کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے’’ میری حوصلہ افزائی کی اور سال ۲۰۰۲میں مجھے سٹیٹ ایوارڈ سے نوازا گیا اس کے بعد میری قومی ایوارڈ کیلئے سفارش کی گئی جس سے مجھے ۲۰۰۳میں سر فراز کیا گیا‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ پہلا نمونہ تیار کرنے میں مجھے چھ برس لگ گئے ۔انہوں نے کہا کہ یہ شال تیار کرنے پر مجھے قریب پانچ لاکھ روپیوں کا خرچہ آیا۔
خان نے کہا کہ میں مختلف نمائشوں میں جاتا ہوں جہاں مختلف ممالک کے لوگ خاص کر عرب کے لوگ ان شالوں کو خریدتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرا ایک شال امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کی بیٹی نے خریدا تھا اور میرا یک اور شال ایک ایجنٹ کی وساطت سے بالی ووڈ کے معروف ادا کار امیتاب بچن نے بھی خریدا ہے ۔تاہم ان کا شکوہ ہے کہ کاریگر اس پیشے کو چھوڑ رہے ہیں۔
دستکار نے کہا’’اب کشمیر میں کوئی یہ کام نہیں کرے گا، کاریگر اس کام کو چھوڑ رہے ہیں وہ اپنے بچوں کو یہ کام نہیں سکھا رہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں میرے ساڑھے چار سو کاریگر تھے لیکن اب بہت کم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں کرافٹ ختم ہو رہا ہے اس کو بچانے کی اشد ضرورت ہے ۔
خان نے کہا کہ میں نے حکومت سے پچاس کنال اراضی فراہم کرنے کی مانگ کی ہے جہاں ایک کشمیر کرافٹ سینٹر قائم کیا جائے گا جس سے ہمارا کرافٹ ناپید ہونے سے بچ سکتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ میں ارباب اقتدار کے پاس مسلسل جاتا ہوں اور میں نے اس ضمن میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا صاحب کے ساتھ بھی بات کی ہے ۔
ماہر دستکار کا ماننا ہے کہ دستکاری ہمارا محض ایک پیشہ نہیں ہے بلکہ یہ حضرت امیر کبیرؒ کا ایک صدقہ ہے جس کی ہمیں قدر کرنی چاہئے ۔