بالی/21نومبر
انڈونیشیا کے دارالحکومت بالی میں منعقدہ جی 20 چوٹی کانفرنس انتہائی جارحانہ اور سرد جنگ کے سائے میں رہی۔
روس یوکرین تنازعہ اور امریکہ چین کشیدگی دونوں کا جی 20 ممالک کے سالانہ اجلاس میں غلبہ رہا۔ صدر ولادیمیر پوتن نے اس سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی کیونکہ یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت ایجنڈے میں رکھ گئی تھی۔
تنازعات کی وجہ سے پیدا ہونے والی جغرافیائی سیاسی کشیدگی اور عالمی معیشت پر اس کے دور رس اثرات، بشمول سپلائی چین میں خلل اور توانائی و خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، سربراہی اجلاس کے اہم خدشات تھے ، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں پر حاوی ہے ۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے سربراہی اجلاس سے خطاب کیا۔ مسٹر زیلنسکی نے روس سے اپنی فوجیں واپس بلانے اور جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن ان امن کی تجاویز کو خارج کیا جو یوکرین کی’خودمختاری، علاقائیت اور آزادی‘کے لیے خطرناک ہے ۔
چوٹی کانفرنس ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اختتام پذیر ہوئی جس میں کہا گیا کہ ’آج کا وقت جنگ کے لیے نہیں ہونا چاہیے‘اور جوہری ہتھیاروں کا استعمال یا استعمال کرنے کی دھمکی ’ناقابل قبول‘ہے یوکرین بحران بڑھنے پر جوہری آپشن کا سہارا لینے والی پتن کی دھمکی کے تںاظر میں۔ اس بیان کے ذریعے ماسکو کو ایک اہم پیغام بھی دیاگیا۔
لیکن چوٹی کانفرنس کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات بین الاقوامی استحکام کےلئے انتہائی اہم تھی، جودوعالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کی علامت بھی تھی۔ بائیڈن کے صدر بننے کے بعد دونوں رہنما¶ں کے ابتدائی بیانات نے تعلقات میں بہتری کا اشارہ دیا، جو حالیہ برسوں میں تاریخی طورپر نچلی سطح پر پہنچ گیاتھا، جس سے دنیا میں ایک نئی سرد جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے ۔