سرینگر//(ویب ڈیسک)
سائنسی مداخلت کی عدم موجودگی اورسستی درآمد شدہ اقسام سے سخت مقابلے نے کشمیر کی اخروٹ کی صنعت کو بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ کاشتکار روزی روٹی کمانے کے لیے سیب کے باغات جیسی متبادل فصلوں کی تلاش میں ہیں۔
کبھی اپنے بھرپور اجزاء اور کریمی ذائقے کی وجہ سے شہرت پانے والے کشمیری اخروٹ چین، کیلیفورنیا، چلی، ترکی اور نیدرلینڈز کے ’انتہائی کم انوائس شدہ‘ گری دار میوے کے ساتھ کسانوں کی طرف سے تھوڑے داموں فروخت کیے جا رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان نے۲۰۲۱۔۲۲ میں۸۲ء۲ لاکھ ٹن اخروٹ کی پیداوار کی جس میں جموںکشمیر کا حصہ تقریباً ۹۲ فیصد ہے۔ کپواڑہ، اننت ناگ اور پلوامہ اضلاع کشمیر میں اخروٹ کی پیداوار میں سرفہرست ہیں۔
کشمیر کے ڈرائی فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر حاجی بہادر خان کے مطابق، اخروٹ پر۱۰۰ فیصد درآمدی ڈیوٹی لگانے کا مرکزی حکومت کا اقدام کشمیر کے چھوٹے، مقامی کسانوں کو بڑے بین الاقوامی کاشتکاروں کی جانب سے غیر منصفانہ قیمتوں سے بچانے میں ناکام رہا ہے۔
خان کاکہنا ہے’’جبکہ اخروٹ کی مروجہ بین الاقوامی قیمت۸۰ء۳؍ امریکی ڈالر فی کلو کے لگ بھگ ہے، ہندوستان میں درآمدی مافیا خشک میوہ جات۳۰ء۱؍امریکی ڈالر فی کلو کے حساب سے خریدتا ہے، جس سے بقیہ ۵۰ء۲ فی کلوگرام پر درآمدی ڈیوٹی کی بچت ہوتی ہے۔ اس سے مقامی کسانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ اپنی پیداوار سستے داموں بیچنے پر مجبور ہیں‘‘۔
وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور کامرس سکریٹری، جے اینڈ کے اخروٹ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، ایک مقامی صنعت کے گروپ، اور بیرپور سمال اسکیل انڈسٹریز ایسوسی ایشن کو دی گئی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ’غیر قانونی عمل‘ کے نتیجے میں ۶۴۸کروڑ روپے کا ریونیو نقصان ہو رہا ہے اور ۵ء۳۲ کروڑ روپے جی ایس ٹی وصولی۔
کسانوں کو اس بات پر بھی افسوس ہے کہ اخروٹ کی کاشت کو زیادہ منافع بخش بنانے کے لیے سائنسی مداخلت کی عدم موجودگی نے کشمیری اخروٹ کے امکانات کو بھی دھندلا دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق حکومت کی جانب سے اخروٹ کے درختوں کی ہائبرڈ اقسام متعارف کرائی گئی ہیں جن کے حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آئے۔
وسطی کشمیر کے بڈگام میں ایک سیب کاشت کرنے والے فیاض احمد نے کہا’’حکومت نے کشمیر میں سیب کی ہائبرڈ اقسام متعارف کروائی ہیں جو کامیاب ہو گئی ہیں لیکن اخروٹ کے لیے ایسی کوئی مداخلت نہیں کی گئی ہے‘‘۔
غلام رسول میر، ڈائریکٹر ہارٹیکلچر (کشمیر) کاکہنا ہے’’ہم کسانوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو اخروٹ کی نرسریوں میں بدل دیں‘‘۔میر نے مزید کہا ’’حکومت سبسڈی والے درخت کی ہائبرڈ اقسام کی پیشکش کر رہی ہے لیکن روایتی اخروٹ کے طویل حمل کے دورانیے کے بارے میں موجودہ معلومات کی وجہ سے، کاشتکار زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں‘‘۔
کشمیر میں اخروٹ کی پیداوار۱۵۔۲۰۱۶ میں۹۴۱ ۱۷۴میٹرک ٹن سے ۱۸۔۲۰۱۹ میں۱۹۵۰۶۶ میٹرک ٹن تک پہنچ گئی لیکن ۱۹۔۲۰۲۰ میں یہ کم ہو کر ۱۸۰۹۷۳ میٹرک ٹن درج کی گئی۔
ماہرین کے مطابق، اگرچہ اخروٹ کسی کیڑے مار دوا کے استعمال کے بغیر مکمل طور پر آرگینکلی اگتے ہیں اور درخت کو اخروٹ کے پھولوں کے کھلنے سے لے کر کٹائی کے موسم تک کسی مداخلت کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن طویل حمل کا دورانیہ کسانوں کو تیزی سے پیداوار دینے والی ہائبرڈ اقسام کے سیب کے باغات کی طرف جانے پر مجبور کر رہا ہے۔