حجاب پر بحث نہ صرف ہندوستان بلکہ دُنیا کے کئی دوسرے ممالک میں ایک عرصہ سے جاری ہے۔ اس حوالہ سے لوگوں کے عقیدے اور نظریات باہم متصادم ہیں۔ چونکہ حجاب یا پردہ کاتعلق مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے بہ نسبت دوسرے عقیدوں اور فرقوں کے زیادہ ہے لہٰذا کچھ ممالک اور معاشروں میں حجاب کے تعلق سے نظریہ ، پسند اور ناپسندیدگی (مخالفت) کو مختلف عینکوں سے دیکھاجارہاہے۔
مثلا ً مغرب میں حجاب کی کوئی اہمیت نہیں، یورپین ممالک ، مغربی ممالک اور کچھ دوسرے ممالک کھلے معاشروں میں یقین رکھتے ہیں اور حجاب کو پسماندگی کی عینک سے دیکھ کر یہ منطق یا دلیل پیش کررہے ہیں کہ حجاب سے عورتوں کی شخصی آزادی جہاں متاثر ہوتی ہے وہیں کام کے حوالہ سے جبکہ حصول تعلیم کے تعلق سے بھی وہ بغیرحجاب کے زندگی گذارنے والوں کے مقابلے میں بچھڑے رہتے ہیں۔ اس جواز یا دلیل میںکوئی منطق اور وزن نہیں ہے بلکہ حجاب کی مخالفت میں جتنی بھی دلیلیں پیش کی جارہی ہیں درحقیقت ان کا تعلق تعصب سے عبارت عقیدے سے ہے ۔
شخصی آزادی ، شخصی پسند اور ناپسند، انسان کی چاہت سے وابستہ ہے جس کا احترام جمہوری نظاموں میں لازم ہے۔ لیکن جو شخص یا اشخاص حجاب کو پسند نہیں کرتے وہ اس اپنی پسند کو اپنے آپ تک محدود رکھیں البتہ اپنی اس پسند یا خواہش کو ہجومی تشدد، حکومتی یا اختیارات کی لاٹھی، دبدبہ، کسی ازم یا عقیدے سے متاثر ہوکر اور نہ کسی اور وجہ یا بُنیاد پر مسلط کرنے کی کوشش کریں۔
حجاب کے بارے میں ہندوستان میں دو طرح کے واضح عقیدے یا نظریات ہیں ۔ آبادی کے کچھ طبقے سے وابستہ خواتین حجاب کی دوسری شکل گھونگھٹ کا استعمال کرتی ہیں۔ خواتین کا یہ طبقہ گھر کی چار دیواری کے اندر بھی اور گھر سے باہر بھی گھونگھٹ کا استعمال کرتی ہیں جبکہ خواتین کا ایک اور طبقہ ساڑھی کا ایک پلو یا ڈوپٹہ سرپر رکھ کر اپنی باپردگی یا حیاء کا دوسروں کوواضح پیغام دے رہی ہیں۔ البتہ ہندو مذہب سے وابستہ خواتین کی ۹۹ فیصد اکثریت جب کسی مندر، گرجا اور گردوارہ میں حاضری دینے جاتی ہیں تو سرکو ڈھانپتی ہیں۔ خواتین کے اس طبقے کے اس طرزعمل جس کا تعلق براہ راست ’پردہ ‘ سے ہی ہے کو کسی مخالفت کا سامنا ہے اور نہ ہی مخالفت یا راستہ روکو والی کسی نازیبہ حرکت کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
لیکن اس کے برعکس جب مسلمان بچیاںیا خواتین حجاب کا استعمال کرتی ہیں تو یہی طبقے مخالفت کی برسات بن کر ان پر ٹوٹ پڑجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں باحجاب بچیوں کو داخلہ نہیں دیاجاتا ہے، پولیس کی مدد حاصل کرکے ان کا راستہ روکا جارہاہے۔ سرکاری احکامات صادر کرکے حجاب کو شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے۔ کام کی جگہوں پر بھی باپردہ یاحجاب کا استعمال کرنے والی خواتین کو مختلف طریقوں سے ہراسانی کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
راہ میں حائل کی جارہی مشکلات اور پریشانیوں اور مخالفانہ نعرے بازی سے عاجزآکر معاملہ کو عدالت میں لے جایاگیا، ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک، لیکن سپریم کورٹ بھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں لے سکی۔دو نفری ڈویژن بینچ نے دو فیصلے دیئے، ایک جج نے حجاب پرسرکاری پابندی کو جائز ٹھہرایا جبکہ دوسرے جج نے حجاب کے استعمال کے حق کو تسلیم کرلیا۔اب معاملہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو ریفر کیاگیاہے۔
عدالت میں فریقین نے اپنے اپنے نظریے اور عقیدے کی بُنیاد پر دلائل پیش کئے، لیکن ان دلائل میں سے ایک دلیل یہ رہی کہ حجاب کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے۔ لیکن جب دوسرے فریق نے اس مخصوص پس منظرمیں سکھوں کی پگڑی کے استعمال کی روایت پیش کی تو جواب دیاگیا کہ پگڑی کے استعمال کا تعلق سکھ فرقے کے مذیبی عقیدے سے ہے۔ یعنی آبادی کے ایک طبقے کیلئے مذہبی عقیدے پر عمل آوری کے حق کو تسلیم کیاگیا لیکن دوسرے طبقے کیلئے حجاب کے تعلق سے ان کے مذہبی عقیدے کو یہ کہکر مسترد کردیا گیا کہ حجاب کا تعلق مسلمانوں کے مذہبی عقیدے سے نہیں۔ یہ لنگڑی اور متعصبانہ دلیل ہی نہیں ہے بلکہ سماج کے ایک طبقے، ان سے وابستہ کچھ تنظیموں کی مخصوص سوچ اور کچھ ذمہ دار آئینی اداروں کی جہالت کی ایک ایسی دلیل ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔
ملکی آئین ملک کے ہر ایک شہری کو بلالحاظ مذہب، ذات ، نسل اور طبقہ کے یکساں حقوق تفویض کررہاہے۔ لیکن بدقسمتی سے آئین کی ان مخصوص شقوں جن کا تعلق شہری آزادی، حقوق کے تحفظ اور ترسیل انصاف وغیرہ سے ہے کی غلط، من پسند اور من اختراعی تشریح کا جامہ پہنا کر اب عدالت تک کو بھی غلط راستہ اختیار کرنے کی ترغیب وتحریک دی جارہی ہے۔ اس پس منظرمیں حجاب کے استعمال کو کچھ مخصوص پہلوئوں سے غورکرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس میں دو رائے نہیں کہ خود مسلمانوں کے اندر خواتین کا ایک طبقہ حجاب کا عقیدہ نہیں رکھتی ہیں اور جو لوگ حجاب کی مخالفت کررہے ہیں وہ بے حجاب مسلمان خواتین کے تئیں کوئی مخالفانہ جذبات نہیں رکھتے۔انہیں صرف چڑ باحجاب خواتین یا باحجاب بچیوں سے ہے۔
مسلمان خواتین کو اسلام، شریعت دونوں باپردہ اور باحیا ء رہنے کاحکم دے رہا ہے۔ بے پردہ یا بے حجاب خواتین کو اس تناظرمیں بے شرم تو سمجھا جارہاہے لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ۔ کیونکہ ہر سزا وجزا کا اپنا الگ الگ درجہ اور مقام ہے۔ جوحجاب کو پسند کرتے ہیں اور اس کے استعمال کو لازمی تصور کرتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اس حوالہ سے قرآنی تعلیمات کیا ہیں، احادیث کیا ہیں، اسوہ حسنہ کی راہنمائی کیاہے، لیکن جو خواتین اپنے لئے حجاب کو پسند نہیں کرتی وہ اپنے عقیدے اور خیالات کے تعلق سے آزاد تو ہیں لیکن ان کی اس آزادی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انہی کی اس پسند کو دوسروں کی بھی پسند قرار دے کر ان پر مسلط کیاجائے۔
جو ڈیشری کے تعلق سے بدقسمتی یہ ہے کہ ججوں کی اکثریت اسلامی عقیدے سے ناآشنا ہے، پردہ کیوں ضروری ہے وہ اس کی گہرائی تک نہیں جاتے کیونکہ وہ اسلامی اموارات کی علمیت نہیں رکھتے۔ وہ اس اشو کو انہی لوگوں کی نظروں سے دیکھتے ہیں جو عدالت میں لنگڑی اور بے منطق دلیلیں پیش کرتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ ان کے سامنے پردہ کی مخالفت میں جو استدلال پیش کیاجارہاہے وہی درست اور زمینی حقائق سے عبارت ہے۔ یہی متصادم نظریہ، جو نہ آئین کا احترام کرتا ہے اور نہ عقیدے اور معاشرتی اقدار کو کوئی اہمیت دے رہاہے، نفرتوں ، پسند اور ناپسندہ جذبات کو اُبھارنے کا موجب بن رہاہے۔