تحریر:ہارون رشید شاہ
ہم میں ایک گُن ہے … زبردست گُن اور وہ ہے اپنے ہی پاتھوں اپنی قبر کھودنے کا گُن …یہ گُن مشکل سے کسی اور قوم میں دیکھنے کو ملتاہے … اگر ملے گا تو صرف ہم … ہم کشمیریوں میں ملے گا۔کشمیر ماحولیات کے اعتبار سے ایک حساس مقام ہے …کشمیر کے ماحولیات کا تعلق یہاں کی سیاحت سے اور یہاں کی سیاحت کا براہ راست تعلق یہاں کی معیشت سے ہے … یہاں کے روز گار سے ہے ۔لوگ ملک کشمیر فطرت کے حسین نظارے ‘ جھیل اور جھرنے ‘ برف سے لدی فلک بوس پہاڑیاں ‘ مرغزار اور سبزہ زار دیکھنے آتے ہیں… روح کو مہکاتے پھول کلیوں سے اپنے جسم و جان کو معطر کرنے آتے ہیں… اگر یہ سب نہ رہے … یا اگر یہ سب کچھ ملک کشمیر میں نہ ہوتا تو کیا کوئی یہاں سیاحت کیلئے آتا … جواب آپ بھی جانتے ہیں اور… اور ہم بھی۔ پھر صاحب ہم اس سب کو تباہ و برباد کرنے پر کیوں تلے ہو ئے ہیں ؟اپنے ماحولیات کے تئیں ہماری تو کچھ ذمہ دار ی ہے نا …تو… تو آپ ہی بتائیے کہ ہم میں سے کون اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے … نبھانا تو دور کی بات ہے‘ نبھانے کی کوشش کرتا ہے ؟پالی تھین کا استعمال ماحولیات کو تباہ کررہا ہے … اور… اور ایک ہم ہیں جو اس کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں…ہم نے پالی تھین کو اپنی زندگی کا ایک اٹوٹ انگ بنا دیا ہے…یعنی ہم نے تباہی کو گلے لگایا ہے ۔ہماری زندگی میں پالی تھین کہاں کہاں سایہ کی طرح ہمارا پیچھا نہیں کرتا ہے … گھر میں ‘ پاس پڑوس میں‘بازار میں‘دکان میں ‘ عبادت گاہوں میں ‘ سرکاری دفاتر میں ‘ سیاحتی مقامات میں ‘بسوں اور گاڑیوں میں‘ اسکولوں میں ‘ کالیجوں ارو یونیورسٹیوں میں۔ کہاں کہاںاس کا چلن نہیں ہے …ہاں ہم مانتے ہیں کہ اس کے استعمال پر روک لگانے کیلئے سرکار کی بھی کچھ ذمہ داری ہے… اور یقینا ہے … لیکن سرکار سے ہم بعد میں حساب مانگیں گے … پہلے خود جواب دیجئے کہ ہم انفرادی سطح پر پالی تھین کے استعمال کو روکنے کیلئے کیا کررہے ہیں…اپنے دل پر ہاتھ رکھ سچ بولئے …اور سچ یہ ہے کہ اس کے استعمال پر روک لگانے کیلئے ہم کچھ نہیں کررہے ہیں … جس دن ہم اس کا استعمال ترک کر دیں گے … اُس دن سرکار کے پالی تھین کے استعمال پر پابندی کے اعلانات محض کاغذی ثابت نہیں ہوں گے اور… اور بالکل بھی نہیں ہو ں گے ۔ شروعات ہم نے کرنی ہے …آپ نے کرنی ہے ‘ سرکار نے نہیں‘بالکل بھی نہیں ۔ہے نا؟