پیٹرول اور پیٹرولیم مصنوعات، رسوئی گیس، ہوائی جہاز کا ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کی ایک نئی لہر جاری ہے۔ ملک کی چند ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے پیش نظر قیمتوں میں اضافہ کے طریقہ کار کو روک دیاگیا تھا لیکن نتائج ظاہر ہونے اور ان ریاستوں میں اسمبلیوںکی تشکیل کے حوالہ سے نوٹیفکیشن کے اجراء کے ساتھ ہی ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ شروع ہوا۔
گذشتہ ۵؍ روز کے دوران پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں چار روز میں ۸۰؍ پیسے فی لیٹر روزانہ کے حساب سے اضافہ عمل میںلایا گیا ہے جبکہ رسوئی گیس کی قیمتوں میں فی سلنڈر ۵۰؍ روپے کا بھاری بھرکم یک لخت اضافہ کردیاگیا ہے۔
ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ انہی تک محدود نہیں بلکہ اس اضافہ کا فوری اثر مسافر ٹرانسپورٹ کی شرح کرایوں، مال بردار گاڑیوںکے کرائیوں ، روزمرہ زیر استعمال اشیاء اور خوردونوش اور دوسرے اہم شعبوں پر پڑتا ہے۔ یہ بڑھتا اضافہ اوسط شہری کی کمر دوہری کردینے کا موجب بن رہا ہے جبکہ اوسط گھرانے کا بجٹ بھی مسلسل طور سے غیر متوازن بن جاتا ہے۔
قیمتوں میں یہ اضافہ پریشان کن مسئلہ ہے ۔ ملک کی ۱۳۰؍ کروڑ کی آبادی کا زائد از ۸۰ فیصد قیمتوں کے اس بوجھ کو سہ نہیں پارہی ہے۔ غریبوں کے چولہے سرد پڑتے جارہے ہیں جبکہ اوسط آمد ن رکھنے والے گھرانے اس بڑھتے بوجھ کو برداشت کرنے کی جہد مسلسل میں نظرآرہے ہیں۔ ملک کی تیل کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ کچھ مہینوں تک پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں کو ایک سطح پر رکھ کر انہیں بحیثیت مجموعی ۱۹؍ ہزار کروڑ روپے کا خسارہ ہواہے۔ لیکن عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میںہورہا اضافہ کے پیش نظر مزید خسارہ ان کی برداشت سے باہر ہے۔ لہٰذا قیمتوں میں روزانہ اضافہ کو جواز عطا کرنے کیلئے وہ جو کچھ بھی دلائل پیش کررہی ہیں ان دلائل اور جوازات سے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگابلکہ جہاں تیل کمپنیوں کی تجوریاںروزانہ اور مسلسل اضافہ سے موٹی ہوتی جائیگی وہیں حکومت کا خزانہ بھی عائد ٹیکس اور سرچارج کی وساطت سے بھرتا جائیگا۔
اسی پر بس نہیں اِن سرمایہ کاروں کی تجوریاں بھی مسلسل موٹی ہوتی جائینگی جو تیل کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اس کے برعکس اوسط شہری کو ذرہ بھر بھی راحت ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اضافہ کی یہ لہر کتنے رو زتک جاری رہیگی یا رکھی جائیگی اس کا انحصار اب تیل کمپنیوں کی اجارہ دارانہ انداز فکر اور ذہنیت پر منحصر ہے جبکہ حکومت بھی اس صورتحال سے براہ راست فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں رہیگی کیونکہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس آمدن کی حصولیابی کا آسان اور بغیرکسی دشواری کے راستہ ہموار ہے۔ چونکہ الیکشن فوری طور سے تقریباً ایک سال تک کسی ریاست میں متوقع نہیں لہٰذا تیل کمپنیوں اور حکومت کے لئے میدان صاف ہے۔
اس ایک سال کے دوران لوگوں کو یہ بوجھ سہنا پڑے گا، کوئی برداشت کرے اورکوئی کرنے سے رہ جائے گا۔لیکن بوجھ ہر حال میں دونوں پر پڑنا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کی بھی کوئی خاص زضمانت دستیاب نہیں کہ روس…یوکرین جنگ فوری طور سے ختم ہو گا۔ بلکہ اس جنگ کے حوالہ سے عالمی سطح پر نئے خطرات بھی منڈلاتے نظرآرہے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ عالمی ماہرین اور تجزیہ کار یہ خدشہ بھی ظاہر کررہے ہیں کہ اگر روس … یوکرین جنگ میں نیٹو کسی بھی حوالہ سے کود گیا تو تیل کی ترسیل بھی بڑے پیمانے پر متاثر ہوگی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ اس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا جائیگا جو ہر ملک کی معیشت کو تہہ وبالا کرکے رکھ سکتا ہے۔اِن متوقع خدشات کے پیش نظر اوسط شہری کا بڑے پیمانے پر منفی طور سے متاثر ہونا خارج ازامکان نہیں۔
تیل اور گیس کے شعبے میں ہندوستان کو ۸۰؍فیصد تک امپورٹس پرانحصار ہے۔ اگر حالیہ برسوں میں وسطی ایشیائی ممالک اور ایران سے تیل کی ترسیلی لائنوں کی تنصیب کے منصوبوں کو عمل جامہ پہنالیاگیا ہوتا تو آنے والے ایام میں بوجھ کم محسوس ہوتا لیکن بدقسمتی سے کچھ سیاسی مصلحتوں اور دائیں بائیں تعلقات میں کشیدگی کے پیش نظر یہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ پھر اس مخصوص شعبے میں کچھ اجارہ دارانہ طریقہ کار بھی معاملات کو پیچیدگی عطاکرتا جارہاہے۔
جموں وکشمیر باالخصوص کشمیر وادی جغرافیائی اعتبا رسے بھی اور فاصلوں کے اعتبار سے بھی ملک کا دراز خطہ ہے یہاں تک کوئی بھی سپلائی گرانی کے ہر ایک مرحلے سے ہوکر پہنچ رہی ہے۔ پھر جب بازار تک ان کی رسائی تک گراں فروشی کی تلوار مسلط ہوجاتی ہے ۔ کشمیر ملک کے ان چند خطوں میں سے ایک ہے جو کسی بھی حوالہ اور شعبے سے خود کفال نہیں بلکہ کھپت والے خطوں میںشمار ہوتے ہیں۔کشمیر میں اوسط شہری اور اوسط گھرانہ گراں فروشی کے بوجھ سے جھوج رہا ہے، اب جبکہ تیل مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی ایک نئی لہر شروع کی گئی ہے ہر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اس طرح کشمیرکیلئے بحیثیت مجموعی یہ صورتحال واقعی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔
بہرحال اس تکلیف دہ صورتحال سے بچنے کا کوئی راستہ دستیاب نہیں ۔ حکومت سے عائد محصولات کی حد میںکچھ چھوٹ دینے کی درخواست کی جاسکتی ہے لیکن کب تک؟ جموںوکشمیر کے اپنے وسائل پہلے ہی محدود ہیں، مختلف شعبوں کے حوالوں سے ضروریات اور اخراجات کی تکمیل کیلئے مرکز کی مالی معاونت پر بڑھتا انحصار غالباً اس چھوٹ کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔ عوام کو راحت رسانی کیلئے کچھ دوسرے راستے اور طریقے تلاش کرنے ہوں گے، اس تعلق سے کشمیر کے کاروباری اور تجارتی ادارے کچھ رول ضرور اداکرسکتے ہیں لیکن ان سے انہی کی قائم روایات اور اختیار کردہ اپروچ کے تناظرمیں اس کی زیادہ توقع نہیں۔