سرینگر//
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے بوگام چاڈورہ علاقے میں اْس وقت لوگوں کے ہوش اْڑ گئے جب ایک نالے میں پانی کے بجائے ہزاروں کی تعداد میں مختلف قسموں کے تازہ سیبوں کا سیلاب اْمڑ آیا۔
ہاٹی کلچر ڈیلوپمنٹ آفیسر کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے جانکاری حاصل کی جارہی ہے۔
یو این آئی اردو کے نامہ نگار نے بتایا کہ بوگام چاڈورہ میں جمعے کی سہ پہر کو اْس وقت لوگوں کے ہوش اْڑ گئے جب علاقے سے بہنے والے نالے میں ہزاروں کی تعداد میں تازہ سیبوں کو دیکھا گیا۔ سیبوں کی تعداد کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ نالہ کا پانی بھی سیبوں کی وجہ سے رک گیا جس وجہ سے مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ نالہ کے اردگرد وسیع العریض سیب کے باغات ہیں چونکہ ریٹ کم ہونے کے باعث مزدوری کے پیسے بھی وصول نہیں ہو رہے ہیں لہذا باغ مالکان اب ان سیبوں کو پھینک رہے ہیں۔
ہاٹی کلچر ڈیلوپمنٹ آفیسر چاڈورہ مشتاق احمد یتو نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ اس بارے میں وہ کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں۔
دریں اثنا بوگام کے سرپنچ محمد مقبول نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ نالے میں سیبوں کو پھینکنا صحیح نہیں تاہم دوائیوں اور مزدوری کے پیسے بھی ادا نہیں ہو پا رہے ایسی صورت میں باغ مالکان کے پاس کون سا راستہ بچا ہے۔
مقبول نے بتایا کہ سیب انڈسٹری کو امسال ناقابل تلافی نقصان ہونے کے باوجود بھی سرکار کی جانب سے باغ مالکان کو ابھی تک کوئی رعایت نہیں دی گئی۔انہوں نے مزید کہاکہ بینک کی جانب سے اْنہیں کے سی سی لون کا سود ادا کرنے پر دباو ڈالا جارہا ہے جس وجہ سے کسان اور باغ مالکان ذہنی کوفت کا شکار ہو گئے ہیں۔
سرپنچ نے مزید بتایا کہ کم سے کم سرکار کو کے سی سی لون میں رعایت دینی چاہئے تاکہ باغ مالکان کوتھوڑی بہت راحت مل سکے۔موصوف سرپنچ نے بتایا کہ ایسے واقعات ہوتے رہیں گے کیونکہ سیبوں کی قیمتوں میں کافی گراوٹ آئی ہے جس وجہ سے باغ مالکان مزدوری بھی ادا کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔
بتادیں کہ سرینگر جموں شاہراہ کئی روز تک بند رہنے سے کشمیر کی فروٹ انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔باغ مالکان کا کہنا ہے کہ شاہراہ بند رہنے کے باعث میوے سے لدی گاڑیاں کئی روز تک درماندہ ہو کررہ جاتی ہیں جس وجہ سے سیبوں کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔