سرینگر//
اپنی پارٹی کے صدر‘ الطاف بخاری نے منگل کو جموں کشمیر انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ سرینگر جموں قومی شاہراہ پر پھلوں سے لدے ٹرکوں کی آمدورفت کو ترجیح دیں تاکہ وادی میں پھل کاشتکاروں کو نقصان نہ پہنچے۔
سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، بخاری نے قومی شاہراہ پر رکے پڑے ٹرکوں کو آگے جانے کی اجازت دینے پرانتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔
بخاری نے کہا’’کل بھی، ہم نے چیف سکریٹری کے ساتھ مسئلہ اٹھایا، ہم نے ان سے کہا کہ اگر مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے، تو ہمیں قاضی گنڈ میں (پھل) کاشتکاروں کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا، حالانکہ ہم امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں چاہتے‘‘۔
کشمیر کے پھلوں کے کاشتکاروں نے پیر کو یہاں حکام کی طرف سے سیب سے لدے ٹرکوں کو ملک کے ٹرمینل منڈیوں کی طرف جانے والے قومی شاہراہ پر مختلف مقامات پر مبینہ طور پر روکنے کے خلاف مظاہرہ کیا۔تاہم انتظامیہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ٹرکوں کو قدرتی وجوہات کی وجہ سے روکا جا رہا ہے۔
بخاری نے کہا’’میں ایل جی سنہا کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ذاتی دلچسپی لی اور کل رات مجھے تصدیق کی کہ انہوں نے ٹرکوں کا پورا بیک لاگ صاف کر دیا ہے‘‘۔تاہم، انہوں نے کہا کہ یہ ایک سادہ سا سوال بھی اٹھاتا ہے کہ اگر انتظامیہ ایک دن میں بیک لاگ کو صاف کر سکتی ہے تو انہوں نے گزشتہ ۱۵ دنوں سے ایسا کیوں نہیں کیا؟
اپنی پارٹی کے صدر نے کہا’’یہ ممکن ہے، اگر ان کا مطلب ہے تو وہ بیک لاگ کو ختم کر سکتے ہیں، وہ ٹرکوں کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ ہم انتظامیہ سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور براہ کرم آپ صرف یہ نہ دیکھیں کہ سیاحت کا شعبہ اچھا کام کر رہا ہے‘‘۔
بخاری نے کہا کہ تقریباً ۷۰ فیصد آبادی کا انحصار باغبانی پر ہے اور اس لیے حکام سے اپیل ہے کہ وہ پھلوں سے لدے ٹرکوں کی نقل و حرکت کو ترجیح دیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وادی کی پھلوں کی صنعت کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی، بخاری نے کہا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو نقصان ہوا ہے اور ہمارے کاشتکاروں کو نقصان ہوا ہے‘‘۔
بخاری نے کہا ’’ہر انتظامیہ میں عناصر ہوتے ہیں اور میں انہیں اس الزام سے بری نہیں کروں گا کہ لاپروائی نہیں کی گئی‘چاہے یہ جان بوجھ کر لاپروائی کی گئی ہو یا اس طرح کا معمول اس انتظامیہ کے تحت بن گیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہیں لیکن میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے کل جو کیا‘ اب ہر روز کرنے کی کوشش کریں‘‘۔
ملک میں پھلوں کی منڈیوں میں کشمیری سیبوں کی کم قیمت ملنے کے معاملے پر بخاری نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک کے باہر سے آنے والے سیب پر درآمدی ڈیوٹی بڑھائے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ افغانستان جیسے دوسرے ممالک سے سیب منگواتے ہیں تو پہلے آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ افغانستان میں اتنے سیب پیدا ہوتے ہیں یا نہیں۔
بخاری نے کہا’’افغانستان ڈیوٹی فری کے نام پر آپ کو جو سیب مل رہا ہے، وہ بنیادی طور پر ایران کا ہے۔ اس کا استعمال ہمارے لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے‘‘۔
سابق وزیر نے مرکز سے اس مسئلہ پر توجہ دینے کی اپیل کی۔