نئی دہلی//
ہندوستان نے جمعرات کو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کی ایک اور کوشش پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کسی ممبر ممالک کی طرف سے کشمیر کا حوالہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
وزارت خارجہ (ایم ای اے) کی طرف سے یہ ردعمل منگل کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں عالمی رہنماؤں سے خطاب کے دوران اردگان کے مسئلہ کشمیر کو اٹھائے جانے کے بعد آیا ہے۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے‘وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا’’یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور ہماری پوزیشن بہت اچھی طرح سے معلوم ہے۔ جموں و کشمیر ہمارا اندرونی مسئلہ ہے اور ہم نے اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دیگر ممالک کی طرف سے کشمیر کا حوالہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔
پاکستان کے قریبی اتحادی اردگان نے اقوام متحدہ کی جنرل سے خطاب میں کہا تھا ’’ہندوستان اور پاکستان نے۷۵ سال قبل اپنی خودمختاری اور آزادی قائم کرنے کے بعد بھی ایک دوسرے کے درمیان امن اور یکجہتی قائم نہیں کی ہے۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے۔ ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ کشمیر میں ایک منصفانہ اور مستقل امن اور خوشحالی قائم ہو‘‘۔
ان کا یہ تبصرہ ازبک شہر سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے ایک ہفتہ سے بھی کم وقت کے بعد آیا ہے جس کے دوران انہوں نے دو طرفہ تعلقات کی مکمل رینج کا جائزہ لیا اور مختلف شعبوں میں تعاون کو گہرا کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔
حالیہ برسوں میں، اردگان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کا حوالہ دیا ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان اور ترکی کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا ہے۔
ہندوستان نے ماضی میں ان کے ریمارکس کو ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ کو دوسری قوموں کی خودمختاری کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے اور اپنی پالیسیوں پر مزید گہرائی سے غور کرنا چاہیے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کینیڈا میں خالصتان کے حامی عناصر کی طرف سے رائے شماری کے انعقاد پر پابندی عائد نہ کرنے پر اپنے زبردست اعتراض اور ناراضگی کا اظہار کیا۔
باگچی نے کہا کہ یہ کینیڈا میں کچھ بنیاد پرست اور انتہا پسند عناصر کی طرف سے محض ایک دھوکہ ہے ۔’’ یہ معاملہ کینیڈا کی حکومت کے ساتھ اٹھایا گیا ہے ۔ کینیڈا کی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس نام نہاد ریفرنڈم کو تسلیم نہیں کرتی اور ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کی حمایت کرتی ہے ۔ لیکن ایک دوست ملک میں اس طرح کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینا انتہائی قابل اعتراض ہے ۔ ہندوستان اس سلسلے میں کینیڈین حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھے گا‘‘۔
برطانیہ میں ہندو برادری پر ہونے والے پرتشدد حملوں سے متعلق سوالات کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ لندن میں ہندوستانی ہائی کمیشن نے ان حملوں کی مذمت کی ہے اور یہ معاملہ برطانوی حکومت اور پولیس کے سامنے اٹھایا گیا ہے ۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی اس بارے میں برطانوی وزیر خارجہ سے بات کی ہے ۔