اب عمر عبداللہ کو ہم نے یہ صلاح تو نہیں دی کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو اپنا دشمن سمجھ لیں…ہم حلفاً بیان کرتے ہیںکہ ہم نے انہیں ایسی ویسی کوئی صلاح‘ کوئی رائے یا مشورہ نہیں دیا اور… اور بالکل بھی نہیں دیا ۔ سچ تو صاحب یہ ہے کہ یہ سیاستدان ہیں … آجکل کے سیاستدان جو ایک دوسرے کو حریف کے بجائے دشمن سمجھ بیٹھے ہیں … کیوں سمجھ بیٹھے ہیں… ہم نہیں جانتے ہیں… بالکل بھی نہیں جانتے ہیں ۔ اپنے عمرعبداللہ کو اگر اس بات کا احساس ہوا ہے …انہیں یہ احساس ہوا کہ اصل میں سیاستدان آپس میں حریف ہیں‘ دشمن نہیں جو ان سے نفرت کی جائے تو… تو ہم غیر مشروط طور پر ان کی اس بات کی تائید و حمایت کرتے ہیں … سو فیصد کرتے ہیں ۔ لیکن صاحب کہانی یہیں پر ختم نہیں ہو تی ہے اور… اور بالکل بھی نہیںہو تی ہے … اس لئے نہیں ہو تی ہے کہ کشمیر میں الیکشن کی باتیں ہو رہی ہیں… صرف باتیں ‘ لیکن ہو ضرور رہی ہیں… اپنے عمر عبداللہ بی جے پی کے رویندر رینہ کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں… یہ کہہ رہے ہیں کہ رینہ سیاسی حریف ہیں ‘ کوئی دشمن نہیں ہیں… یہ عمر عبداللہ کہہ رہے ہیں… رینہ کی اُس بات کے جواب میں کہہ رہے ہیں جس میں انہوں نے عمر عبداللہ کو جموں کشمیر کی اعلیٰ سیاسی قیادت میں ایک ہیرا قرار دیا تھا … جب سیاسی لیڈروں میں ایسے خوبصورت الفاظ اور جملوں کا تبادلہ ہو تو … تو یقین کیجئے کہ کچھ ضرور ہے ‘ جس کو چھپا یا جارہا ہے یا کچھ ضرور ہونے والا ہے ‘ جسے فی الحال پردوں کے پیچھے رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور… اور سو فیصد کی جا رہی ہے ۔اور یہ بھی تو سچ ہے کہ عمرعبداللہ کی جماعت کشمیر کی پہلی سیاسی جماعت ہے … جس نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا ‘ اس کے ساتھ اتحاد کیا ‘ اس کی حلیف اور اتحادی جماعت بن گئی اور… اور اپنے عمر عبداللہ صاحب واجپائی جی کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے خارجہ بن گئے ۔یقینا آج یہ بات سننے میں بڑی معمولی لگتی ہے ‘ لیکن… لیکن بیس پچیس سال پہلے کشمیر کی کسی سیاسی جماعت کیلئے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانا کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں تھی… بالکل بھی نہیں تھی… آج نہیں ہے ‘آج عمرعبداللہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں… ہاتھ کیا اس کے گلے بھی لگ سکتے ہیں اور… اور اگر ان میں اور رینہ میں حسین و جمیل جملوں کا تبادلہ اسی اور اشارہ بھی کرتا ہے تو… تو ہم حیران ہیں اور نہ آپ پریشان۔ ہے نا؟