’میں بھی استعفیٰ دوں گا‘۔کس سے استعفیٰ دوگے ؟…’کانگریس سے‘۔لیکن تم تو کانگریس میں ہو ہی نہیں ‘ تم تو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہو ۔’ہاں جانتا ہوں ‘ لیکن کسے پتہ چلے گا کہ میں کانگریس میں ہوں یا نہیں ‘۔یہ دلچسپ پوسٹ آج صبح صبح پڑھنے کو ملا جو اس وقت کے حالات کی صحیح صحیح عکاسی کرتا ہے ۔ آزاد… غلام نبی آزاد کانگریس سے مستعفی کیا ہو گئے کہ … کہ جموںکشمیر میں استعفوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے… جسے دیکھئے وہ مستعفی ہو رہا ہے … اور آزاد صاحب کے خیمے میں شامل ہورہا ہے… کیوں ہورہا ہے ‘ ہم سمجھ نہیں پا رہے ہیں ۔اگر ان کا کانگریس میں اتنا ہی دم گھٹ رہا تھا … اگر انہیں اب کانگریس میں نہیں رہنا تھا تو… تو اس کیلئے انہوں نے آزاد صاحب کے مستعفی ہونے کا انتظار کیوں کیا ؟استعفیٰ تو یہ آزاد صاحب کے مستعفی ہونے سے پہلے بھی دے سکتے تھے …انہیں اس سے کوئی روک سکتا تھا اورنہ ٹوک سکتا تھا … لیکن یہ کانگریس سے چپکے رہے… کیوں رہے ہم نہیں جانتے ہیں… اسی طرح جس طرح ہم یہ نہیں جانتے ہیں کہ … کہ کشمیر میں استعفوں کا یہ سلسلہ چل کیوں پڑا ہے… ہاں اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے اور…اور اس وجہ کا تعلق براہ راست ہمارے ڈی این اے… قومی ڈی این اے کے ساتھ ہے… وہ کیا ہے کہ … کہ کشمیر میں ایک کہاوت ہے’یوکن واو‘ توکن ناؤ‘… بس پھر کیا ہے ‘کشمیر میں کچھ بھی انوکھا ‘ کچھ بھی نیاہو جائے تو لوگ اسی کی اوردوڈ جاتے ہیں… فہرست لمبی اور طویل ہے ‘ اس لئے اس کا یہاں ذکر کرنا ضروری نہیںہے… لیکن … ہاں ایک بات بتائے بغیر ہم نہیں رہ سکتے ہیں کہ … کہ نئی بات نو دنوں تک ہو تی ہے‘ اس کا اثر ۹ دنوں تک ہوتا ہے… اس کے بعد یہ پرانی ہوجاتی ہے… اتنی پرانی کہ … کہ کسی کو یاد بھی نہیں رہتی ہے اور… اور بس ۹ دنوں کا انتظار کیجئے پھر دیکھئے ہو تا کیا ہے کہ… کہ اس کے بعد لوگ سب کچھ بھول جائیں گے۔آزاد صاحب اور ان کے استعفے کو بھی بھول جائیں گے… اوراس لئے بھول جائیں گے کہ آزاد صاحب کا قومی سیاست میں یقینا ایک قد… بہت اونچا قدرہا ہے… اس میں دو رائے نہیں ‘ لیکن… لیکن صاحب جموں کشمیر میں ان کی سیاسی ساکھ کیا ہے ‘ یہ آپ جانتے ہیں اور… اور سو فیصد جانتے ہیں …اورہاں ہم بھی ۔ ہے نا؟