سرینگر/27 اگست
کانگریس کے سینئر لیڈر طارق حمید قرہ کا کہنا ہے کہ غلام نبی آزاد کے استعفیٰ مکتوب سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ پارٹی کی آئیڈیالوجی کے ساتھ اختلافات کرنے کے بجائے ذاتی اختلافات کی بنیادوں پرمستعفی ہوئے ہیں۔
قرہ نے کہا کہ غلام نبی آزاد کا استعفیٰ نامہ پانچ صفحوں پر مشتمل ہے جن میں سے ساڑھے تین صفوں پر انہوں نے اپنی تعریفیں کی ہیں جبکہ باقی ڈیڑھ صفحے پر مستعفی ہونے کے وجوہات بیان کئے ہیں۔
کانگریسی لیڈر نے ان باتوں کا اظہار ہفتے کے روز یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔
قرہ نے کہا کہ آزاد صاحب کا مستعفی ہونا میرے لئے کوئی حیران کن اقدام نہیں ہے کیونکہ وہ پچھلے آٹھ نو مہینوں سے جموں وکشمیر میں آزادانہ طور ہی کام کرتے تھے ۔
ان کا کہنا تھا”لیکن آزاد صاحب نے استعفیٰ دینے کے لئے جو وقت مقرر کیا ہے اس کے دو زاویے ہیں ایک یہ کہ کیا وجہ ہے کہ جب کانگریس صدر بیمار ہوتی ہیں یا ہسپتال میں زیر علاج ہوتی ہیں تو وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں“۔
قرہ نے کہا کہ آزاد صاحب کے پانچ صفحوں پر مشتمل استعفیٰ نامے میں سے ساڑھے تین صفحوں پر انہوں نے کانگریس پارٹی کے ساتھ وابستگی اور گاندھی خاندان کے ساتھ اپنے تعلقات کا خلاصہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ باقی ڈیڑھ صفحے پر مستعفی ہونے کی وجوہات بیان کی ہیں۔
کانگریسی لیڈر کا کہنا تھا”کانگریس میں ملنے والے عہدوں کا ذکر کرکے آزاد صاحب نے لوگوں میں پیدا ہونے والے ان سوالوں کو خود ہی جواب دیا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی نا انصافی کی گئی ہو“۔
قرہ نے کہا کہ آزاد صاحب نے اپنے مکتوب میں راہل گاندھی کو نشانہ بنایا ہے ۔
انہوں نے کہا”لیکن آزاد صاحب ہی نے تمام ڈیلی گیٹس سے یہ قبول کرایا کہ راہل گاندھی کو اپنی ٹیم خود مقرر کرنے کے اختیار دئے جائیں اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کو بھی وہ خود ہی مقرر کریں“۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف آزاد صاحب راہل جی کی کار کردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف انہیں ایسے لیڈر سمجھتے ہیں جو اپوزیشن کی آواز اٹھاتے ہیں۔
کانگریس لیڈر نے کہا کہ جو آزاد صاحب نے لکھا ہے وہ سب ذاتی اختلافات ہیں۔انہوں نے کہا”ان کا ذاتی اختلافات کی بنیادوں پر استعفیٰ دینے سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ شاید ان کو کانگریس کی اس آئیڈیالوجی کے ساتھ اختلاف ہے جس کے تحت وہ آج ملک کو ہندو مسلم و غیرہ کے نام پر منقسم کرنے والی طاقتوں کے خلاف کمر بستہ ہے “۔
کانگریسی لیڈر نے کہا کہ بی جے پی جموں و کشمیر میں اپنی اس پالیسی میں کامیاب ہوئی ہے جس کے تحت وہ یہاں پارٹیوں کو توڑنے کی کوششیں کر رہی ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آزاد صاحب اگر آج سمجھتے ہیں کہ انہیں آن بورڈ نہیں لیا جا رہا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گذشتہ پچاس برسوں سے وہ ہی آن بورڈ تھے ۔