کشمیر ایک مدت سے سراپا احتجاج ہے، چیخ رہا ہے اور ہر درپر دستک دیتا آرہا ہے کہ ملک کی کچھ بددیانت ادویات ساز کمپنیوں نے ناجائز منافع خوری اور جعلسازانہ طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے کشمیر کے بازاروں میں غیر موثر اور دونمبر کی ادویات کی کھپت کا ایک وسیع جال بچھا رکھاہے، یہ دوا ساز کمپنیاں جعلی اور غیر موثر ادویات کو کشمیرکے بازاروں کی زینت بناکر اوسطاً ہر ایک کشمیری کی صحت، سلامتی اور بقاء کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑکی مرتکب ہورہی ہیں۔ سالانہ ہزاروں کروڑوں روپے مالیت کی ادویات کشمیرکے بازاروں میں لاکر یہ جو سرمایہ کشمیر سے بٹورہی ہیں وہ صرف انہی کے شکموں کو سیر نہیں کررہاہے بلکہ کشمیر میںان کے جتنے بھی آلہ کار اور مہرے ہیں وہ بھی اپنا حصہ وصول کرکے اپنی شکمپری کررہے ہیں۔
ان دوا ساز کمپنیوں کے خلاف حکومتی سطح پر آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی، کسی ایک کو بھی گرفت میں نہیں لایاگیا،۳۷۰ کی موجودگی میں جتنی حکومتیں برسراقتدار رہی وہ اس بے حد حساس اور نازک معاملے کے تئیں بے اعتنا رہی اور ۳۷۰؍ کے خاتمہ کے بعد جو انتظامیہ کام کررہاہے وہ بھی اس تعلق سے خاموش اور بے اعتنا ہے۔ ڈاکٹروں کا ایک ذمہ دار اور حساس طبقہ اس بات پر متفق ہے کہ کشمیرکے گھرانوں اور خاندانوں میںپرورش پارہی بیماریاں اور مختلف نوعیت کے امراض بازاروں میں دستیاب انہی غیر موثر ادویات کی کھپت کا نتیجہ ہے، اس وبا کو پھیلانے میں جہاں مخصوص اور بددیانت کچھ سٹاکسٹوں اور ادویات کا کاروبار کرنے والے دکانداروں کاراست کردار ہے وہیں مخصوص ذہنیت کے حامل بعض ڈاکٹروں کا کلیدی کردار بھی واضح ہوچکاہے۔
اس مخصوص اشو کے حوالہ سے بہت سارے قصے، کہانیاں جبکہ کچھ مفروضے بھی زبان زد عام ہیں۔ جن کا احاطہ مشکل نہیں البتہ عوام کو اس بات کا شکوہ ہے کہ حکومت اور اس کی مشینری باالخصوص متعلقہ ذمہ دار ادارے اپنے فرائض دیانت داری سے ادانہیںکررہے ہیں، بلکہ وہ آنکھیں چراکر عملاً معاونتی کردار ہی اداکررہے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری سطح پر ہسپتالوں کیلئے ادویات کی خریداری میںبہت بڑا سکینڈل بھی کچھ برس قبل منظرعام پر آچکاہے لیکن وقت کے حکمرانوں نے اس خریداری سکینڈل میں ملوث کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی۔
اب معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا۔ عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش ایک درخواست میں مانگ کی گئی ہے کہ دوا ساز کمپنیوں جو ڈاکٹروں کو مخصوص ادویات تجویز کرنے کیلئے مختلف نوعیت کی مراعات سے نواز رہی ہیں کے خلاف موثر کارروائی کی جانی چاہئے اور انہیں جواب دہ بنایاجانا چاہئے۔ درخواست گذار نے مثال دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بخار کیلئے مخصوص دوائی… ڈولو۶۵۰ کو تجویز کرنے کیلئے کمپنی نے ایک ہزار کروڑ روپے کے نذرانے پیش کئے۔ جسٹس چندر چوڈ اور جسٹس اے ایس بوپنا پر مشتمل عدالتی بنچ نے اس معاملے کو ’بے حد سنجیدہ‘ قرار دیا اور مرکزی سرکاری سے دس روز کے اندر اندر اپنی رپورٹ جواب کی صورت میں عدالت کے روبرو پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے سامنے پٹیشن کسی اور نے نہیں بلکہ خود فیڈریشن آف میڈیکل اور سیلز نمائندگان ایسوسی ایشن آف انڈیا نے پیش کی ہے۔
واقعی یہ سنجیدہ اور قابل غور معاملہ ہے۔ ایک دوائی کی تشہیر اور استعمال کے حوالہ سے ڈاکٹروں کی ترجیحات کا حصہ بنانے کیلئے ایک ہزار کروڑ روپے کی رشوت خود اس بات کو واضح کررہاہے کہ دواساز کمپنیاں کس حد تک اخلاقی گراوٹ کی مرتکب ہوسکتی ہیں اور کس حد تک اوسط شہری کی قیمتی زندگی ، صحت اور سلامتی کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کی مرتکب ہوسکتی ہے۔
حکومت کا مسلسل دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو کورپشن اور بدعنوان طریقہ کار سے نجات دلانے کے مشن اور وژن کو عملا رہی ہے لیکن جس ملک میں اس مخصوص خصلت کی بددیانت ادویہ ساز کمپنیاں اپنے ناجائز کاروبار کے فروغ کیلئے سرمایہ کاری کررہی ہوں،نذرانے اور رشوت کے راستے اختیار کررہی ہوں، جس ملک میں شراب کی لائسنس اجرا ء کرنے یا شراب سے متعلق غیر صحت مند اور بددیانتی سے عبارت پالیسیاں وضع کرنے کا چلن ہو، جس ملک میں الیکشن عمل میںکامیابی حاصل کرنے کیلئے دونمبرکا سرمایہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہو، جس ملک کی ایک ریاست مدھیہ پردیش کا ایک سرکاری ملازم جو محض اے آر ٹی او ہے اور جس نے اپنی بیوی کو بحیثیت کلرک اپنے ہی دفترمیں لگا رکھا ہو اور جس نے کروڑوں روپے مالیت کے اثاثے مکانات، گاڑیاں اپنی تجوریوں کی زینت بنا دی ہوں اُس ملک کو کورپشن مکت کے راستے پر گامزن کرنا بہت مشکل بلکہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
کشمیرکے طول وارض میں سالانہ کتنے ارب روپے مالیت کی ادویات کی خریداری ہورہی ہے اس بارے میں مستند اعداد وشمار دستیاب تو نہیں لیکن ہر گلی، ہر بازار اور ہر نکڑ پر ادویات کی دکانوں کی موجودگی پر محض سرسری نگاہ دوڑائی جائے تو حجم کا کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر بحیثیت مجموعی کل ۳۲۰ ؍ادویات مستند تسلیم کی جارہی ہیں لیکن کشمیر میں اس کے کئی گنا حجم اور تعداد میں ادویات دستیاب ہیں اور ان دستیاب ادویات کا تقریباً ۸۰؍ فیصد غیر موثرا وردونمبری شمار کی جارہی ہیں۔ جبکہ کچھ ادویات کے بارے میں حال ہی میں یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ کچھ ڈاکٹران ادویات کی آزمائش مکمل ہونے اور نتائج کا انتظار کرنے سے قبل ہی مریضوں کیلئے انہیں تجویز کرتے رہے ہیں۔ اس حوالہ سے ایک رپورٹ بھی ڈرگ اتھارٹیز کے پاس آئی تھی، پھر کیا ہواکسی کو کچھ علم نہیں!
اب نگاہیں اور توجہ سپریم کورٹ کی طرف مرتکز ہوئی ہیں، اوشط شہری کو توقع ہے کہ بدنیتی اور مجرمانہ ذہنیت پر مبنی اس کاروبار کو لگام دی جائیگی تاکہ ملک کورپشن مکت اور صحت مند راستے پر گامزن ہو سکے۔