عالمی سطح پر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے یا قلع قمع کرنے کے تعلق سے کئی ایک کثیر الملکی اتحاد موجود ہیں، یہ اتحاد جدید ترین اسلحہ جات، سرمایہ کی فراہمی ، جدید ترین تکنیکی خدمات وغیرہ سے لیس ہیں۔ان میں سے کچھ اتحادوں کی سرپرستی امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ کررہاہے۔کچھ کی سرپرستی سعودی عربیہ کررہاہے، کچھ ایک کی قیادت یا تعاون روس کے ہاتھ میں ہے لیکن دہشت گردی کا نہ خاتمہ ہورہاہے اور نہ ہی کسی طور قابو میں آرہی ہے۔ بلکہ یہ دہشت گردی کسی نہ کسی روپ میں دُنیا کے مختلف خطوں میںموجود ہے، جس کے نتیجہ میں ان خطوں کی زمین ہر روز لہو رنگ بنی نظرآرہی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف لڑی جارہی یہ طویل جنگ اتحادی ملکوں کی سرپرستی کے باوجود ختم کیوںنہیں ہورہی ہے یا یہ کنٹرول میںکیوں نہیں آرہی ہے، بادی النظرمیں اس کی اہم ترین بلکہ بُنیادی وجہ یہ ہے کہ اتحادی صف میں شامل ہونے کے باوجود کچھ ممالک اور ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں یا ادارے سٹیک ہولڈر بن کردہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے ہیں، دہشت گردوں کو سرمایہ بھی فراہم کیاجارہاہے، ہتھیار بھی دستیاب رکھے جارہے ہیں، خفیہ معلومات کی فراہمی میں انہیں اپنا شریک بھی بنایا جارہاہے، جبکہ کچھ ایسے نریٹو بھی اختیار کئے جارہے ہیں جس نریٹو میں دہشت گردوں کے ایک حصے کو ’اچھے دہشت گرد جبکہ ایک حصے کو خراب دہشت گرد‘ کے اصطلاح کے لبادوں میں پیش کرکے دامن بچانے کی سعی لاحاصل کی جارہی ہے۔
جنوبی ایشیائی خطے کے حوالہ سے سرگرم دہشت گرد گروپوں اوران گروپوں سے وابستہ دہشت گردوں کے تئیں چین کا رویہ بتدریج بے نقاب ہوتاجارہاہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاسوں میںکچھ دہشت گرد گروپوں اور دہشت گردوں کے بارے میں پیش قراردادوں پر ویٹو(حق تنسیخ) کا بے دریغ اور ناجائز استعمال چین کے دہرے پن کا بین ثبوت ہے۔ سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں پاکستان نشین کچھ دہشت گردوں پر پابندی سے متعلق قرارداد کو تکنیکی بُنیاد پر ویٹو کرنے کے اقدام کو اگر چہ ہندوستان نے کڑی مذمت کرتے ہوئے اسے چین کے دوہرے پن سے موسوم کیا ہے لیکن اس مذمت سے چین مستقبل میں ویٹو کے عدم استعمال سے ہاتھ روکنے والانہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
ان وجوہات میں پاکستان کی معاونت اور کردار، پاکستان کے مختلف علاقوں میں چینی پروجیکٹ کی سرمایہ کاری، ان پر وجیکٹوں کی عمل آوری میں چینی باشندوں کے پاکستان میں قیام اوران کے تحفظ کو یقینی بنانے کی حکمت عملی تاکہ دہشت گرد گروپ انہیں حملوں کا نشانہ بنانے سے اجتناب کرتے رہیں، ان گروپوں کو چینی علاقوں تک اپنی کارروائیوں کو وسعت دینے سے باز رکھنے کی حکمت عملی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کا مسلسل دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف عالمی سطح کے اتحاد کا شریک ہے اور اس شرکت کی پاداش میں اس کے زائد از ۸۰؍ہزار شہری اور فورسز کے اہلکار کام آچکے ہیں۔ لیکن درپردہ پاکستان کی کچھ سیاسی قیادتیں اور جماعتیں اپنے اداروں کی معاونت سے دہشت گردوں کی سرپرستی بھی کررہی ہیں اور انہیں سہولیات بھی فراہم کررہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ کم وبیش ہر سیاسی گھرانہ اپنی ملیشیا پال رہاہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کا دوسرا نام طالبان خان رکھا گیا ہے۔ا س کی قیادت میں صوبائی حکومت نے گذشتہ برس حقانی نیٹ ورک کو کروڑوں روپے فراہم کئے جس کی ادائیگی کی تصدیق اس صوبائی حکومت کی بجٹ میں مختص سرمایہ سے بھی کی گئی۔ اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے بعض سرحدی علاقوں میںدہشت گردگروپ پھر سے متحرک ہورہے ہیں، پاکستان آرمی اور سویلین پر حملوں میںتیزی آرہی ہے۔
افغانستان ایک مرتبہ پھر عالمی دہشت گردوں کے ایک بڑے مرکز کے طور اُبھررہاہے۔ حالانکہ امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں کے ساتھ دوحہ معاہدے کے تحت اس بات کی یقین دہانی طالبان دیتے رہے کہ افغانستان کی سرزمین کو لانچنگ پیڈ کے طور استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی اور نہ ہی کسی بین الاقوامی گروپ کو زمین فراہم کی جائیگی۔ لیکن ایمن الظواہری کی افغانستان میں موجودگی اور حالیہ ڈرون حملے میں ہلاکت نے طالبان حکومت کے دوہرے پن کو بے نقاب کردیاہے۔
بہرحال ملکوں،حکومتوں اور ان کی ایجنسیوں کا یہی دوہرا پن دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور ناکامی ثابت ہورہی ہے۔ ملکوں اور ان کی سیاسی قیادتوں کی اس نوعیت کی سرپرستی یونہی جارہی رہی تو دُنیا کے کسی بھی خطے سے دہشت گردی کی لعنت ختم نہیں ہوگی بلکہ ہرگذرتے دن کے ساتھ یہ وبائی صورت اختیار کرتی ہی جائیگی۔ امریکہ کی مخصوص طور سے بات کی جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ خود کودُنیا کا واحد سُپر پاور جتلانے والا امریکہ سفید دہشت گردی میںمبتلا ہے، نہ صرف سیاہ فام امریکی شہری اس سفید بُت پرستی کے ہاتھوں نشانہ بن رہے ہیں بلکہ دُنیا کے مختلف قوموں اور تہذیبوں سے وابستہ امریکہ میں مقیم شہریوں کو بھی کبھی سکھوں کے نام پر ، کبھی مسلمانوںکے نام پر تو کبھی کسی اور تہذیب سے وابستگی کی بنا پر دہشت گردی کا نشانہ بنایاجارہاہے۔ لیکن امریکہ کی حکومتی قیادت اور ان کی ایجنسیاں اس دہشت گردی کو دہشت گردی نہیں بلکہ اپنی اختراعی گن کلچر کی دین قرار دے رہی ہیں۔