سرینگر//
جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے ایک والد کی اُس عرضی کو خارج کیا ہے جس میں اُس نے سال۲۰۰۴میں اپنے بیٹے کی ہلاکت میں انکوائری کرنے اور معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
مذکورہ والد کا الزام تھا کہ فوج نے اس کے بیٹے کو ہلاک کیا تھا۔عرضی گذار‘ جو اب زندہ نہیں ہے ‘نے ہائی کورٹ کے سامنے پیش کی جانے والی اپنی عرضی میں الزام لگایا تھا کہ جموں کشمیر پولیس کے اچھ بل اننت ناگ کیمپ کے سپیشل ٹاسک فورس نے ۱۹مارچ۲۰۰۴کو اس کے بیٹے بشیر احمد کو پکڑ لیا تھا اور وائیلو کوکرناگ میں قائم فوج کی۵پیرا کے سپرد کیا تھا جنہوں نے اس کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔
عرضی گذار کا الزام تھا’’متوفی کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات تھے اور اس کو بے رحمی سے لوہے کی سلاخوں سے پیٹا گیا تھا‘‘۔ان کا دعویٰ تھا’’میرا بیٹا ملی ٹنسی سے متعلق کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا اور نہ ہی اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ تھا‘‘۔انہوں نے بیٹے کی موت کیلئے معاوضے کا مطالبہ کیا تھا۔
مدعی علیہ نے عرضی گذار کے دعوؤں کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ متوفی نے لشکر طیبہ سے وابستہ جنگجو ہونے کا اعتراف کیا تھا۔انہوں نے کہا’’وہ لشکر طیبہ کے صوبائی کمانڈر کی کمیں گاہ کے نزدیک چھڑنے والے ایک انکاؤنٹر میں ہلاک ہوا جہاں اس نے سیکورٹی فورسز کو لیا تھا‘‘۔
کرنل ونیت سیٹھ نے پہلے اپنے ایک حلف نامے میں بشیر احمد کی گرفتاری اور بعد ازاں اس کی موت واقع ہونے کے متعلق انکار کیا تھا۔فوج کا کہنا تھا کہ بشیر احمد کو کبھی بھی فوج کی۵پیرا کے حوالے نہیں کیا گیا۔بعد میں فوج کی ایک پیرا کے ایک افسر کی طرف سے دائر ایک تفصیلی کاؤنٹر حلف نامے میں کہا گیا کہ اس کی یونٹ کے اہلکاروں نے بشیر کو گرفتار کیا جس نے کمین گاہ کے پتہ کا انکشاف کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ایک مشترکہ آپریشن شروع کیا گیا جس دوران جنگجوؤں نے سیکورٹی فورسز پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں بشیر احمد زخمی ہوکر بر سر موقع ہی ہلاک ہوگیا۔
جسٹس سنجے دھر کے مطابق گرچہ پولیس اور فوج کے ورژنز میں اختلافات ہیں تاہم دونوں کا ماننا ہے کہ بشیر احمد انکاؤنٹر کے دوران ہلاک ہوا۔انہوں نے کہا کہ کیس ڈایئری کے ریکارڈ پر موجود مواد سے بادی النظر میں یہ عندیہ ملتا ہے کہ متوفی ایک کالعدم جنگجو تنظیم کے لئے کام کرتا تھا۔
کورٹ نے کہا کہ وہ اس متنازعہ سوال خاص کر موت واقع ہونے کی وجہ کا تعین کرنے کے میدان میں نہیں اتر سکتی ہے ۔
جج نے کہا کہ مجھے اس عرضی میں کوئی میرٹ نظر نہیں آ رہا ہے لہذا اس کو خارج کیا جا رہا ہے اور عرضی گذار کو اختیار ہے کہ وہ تحت قانون کوئی دوسرا مناسب علاج تلاش کرے ۔