بات ۵؍ اگست ۲۰۱۹ سے پہلے کی ہے… ایک شخص بہت باتیں کرتا تھا … دن رات اور رات دن کرتا رہتا تھا…لیکن ۵؍اگست ۲۰۱۹ کے بعد یہ شخص بالکل خاموش ہو گیا ہے… اتنا خاموش کہ جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہے… وہ دن اور آج کا دن ‘ اس شخص کی بولتی کچھ اس طرح بند ہو گئی ہے کہ جیسے اب اس کا کوئی وجود ہی نہیں رہا ہے … ہاں آپ کہہ سکتے ہیں اور… اور سو فیصد کہہ سکتے ہیں کہ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کے بعد تو سارے لوگ ہی خاموش ہو گئے ہیں… لوگ کیا پوری قوم کشمیر ہی خاموش ہوگئی ہے… پوری قوم کو سانپ سونگھ گیا ہے… ایسے میں اگر یہ ایک شخص بھی خاموش ہو گیا تو… تو اس میں انوکھی بات کیا ہے … اس میں بڑی بات کیا ہے ؟بڑی بات یہ ہے کہ… کہ یہ شخص ملک کشمیر میں نہیں رہتا ہے… یہ بھارت دیش میں بھی نہیں رہتا ہے…یہ پاکستان میں رہتا ہے اور… اور گزشتہ ۳۵ برسوں سے رہتا ہے … یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ سید صلاح الدین ہے … اور ہمیں یقین ہے کہ اب آپ بھی ہماری اس بات پر یقین کریں گے کہ ان جناب کو سچ میں سانپ سونگھ گیا ہے… آپ ایسا کہہ سکتے ہیں… لیکن ہم نہیں … ہم یہ کہیں گے کہ صلاح الدین کو بھی ۵؍ اگست ۲۰۱۹ کا ڈر بیٹھ گیا ہے… یہ بھی ڈر گئے ہیں… ان جناب کی سمجھ میں بھی یہ بات آگئی ہے اور سو فیصد آگئی کہ کھیل ختم ہوا … نہ صرف ملک کشمیر بلکہ پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں بھی … ان لوگوں کا کھیل ختم ہو گیاجنہوں نے دکانیں کھول رکھی تھیں … مسئلہ کشمیر کے نام پر دکانیں۔بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ دفعہ ۳۷۰ کو ختم کرنے سے کیا ہوا ‘ کچھ نہیں ہوا ‘ کہ دفعہ پہلے ہی کھوکھلی ہو گئی تھی…گھس گھس کے اس میں کچھ نہیں رہا تھا… لیکن صاحب بات یہ نہیں ہے… بلکہ یہ ہے کہ اس دفعہ کو ختم کرنے کے ساتھ ہی وہ سوچ بھی ختم ہو گئی جو سوچ لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی تھی کہ ملک کشمیر بھارت کی دوسری ریاستوں سے الگ ہے‘ کچھ خاص ہے …اگر ایسا نہیں ہو تا تو… تو اپنے صلاح الدین خاموش کیوں ہو تے کہ … کہ انہیں تو پاکستان میں بیٹھ کر کسی پی ایس اے‘ ای ڈی یا این آئی اے کا ڈر نہیں تھا … بالکل بھی نہیں تھا ۔ ہے نا؟