جموں وکشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے گذرے تین برسوں کے دوران ترقیاتی بلندیوں کا ایک سرسری احاطہ پیش کرنے کے تناظرمیں کہا ہے کہ ۱۹۹۰ء میں نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس خطے کو قدرت نے اپنے وسائل سے مالا مال کررکھا ہے ۔
گورنر صاحب کا یہ بیان جہاں غوروفکر کا متقاضی ہے وہیں کئی ایک سوالات بھی تاریخ کے مخصوص پس منظرمیں ایک بار پھر اُبھر کر سامنے آرہے ہیں۔ کشمیرمیں عام تاثر یہ ہے کہ اُس دور تک کی برسراقتدار حکومتوں اور کورپٹ اور بدعنوان سیاسی قیادت نے اپنے مخصوص مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے اس منظرنامہ کو ایک منظم منصوبے اور ایجنڈا کے تحت جنم دیا ۔ لیکن اپنے ان حقیر سیاسی اور ذاتی مفادات کو پردوں کی اوٹ میں کرنے کیلئے یہ پروپیگنڈہ کیاجاتا رہا کہ چونکہ روزگار کے وسائل سکڑتے جارہے تھے اور نوجوانوں کو روزگار سے دانستہ طور سے محروم کرنے کے راستے اختیار کئے جاتے رہے تو وہ گمراہ ہوئے یاانہیں گمراہ کرکے عسکریت کے راستے پر گامزن بھی کیاگیا اور اس راستے کو اختیار کرنے کی تحریک بھی دی جاتی رہی۔
اس تعلق سے کئی ایک بیانیے اختراع کرکے میدان میں جھونک دیئے گئے، جن بیانیوں کو بطور آکسیجن کئی ایک مگر باہم متصادم سیاسی نظریات کے حامل افراد اور جماعتیں استعمال کرکے اپنے اپنے اہداف اور نظریات کی تکمیل کیلئے میدان میں اُتر گئیں۔لیکن بحیثیت مجموعی ایسے کسی منظرنامے کی تخلیق کا تصور یاگمان بھی کشمیر کی عوامی صفوں میں کہیں نہیں تھا۔ لیکن اختراعی بیانیوں کے بل پر ایک ہوا کھڑا کردیاگیا، جس ہوا کے چلتے کچھ حلقے اس جانب متوجہ ہوئے اور انہوںنے اس کا خیر مقدم کیا۔ اس صورتحال کو لوگوں کی سادگی بھی قراردیاجاسکتا ہے یا اختراعی بیانیوں کا اثر بھی۔
لیکن اس تصویر کے کئی دوسرے پہلو بھی رہے ہیں۔ دہلی سے لے کر سرینگر تک برسراقتدار حکمرانوں نے بے عملی اور غیر سنجیدگی کا دامن تھام لیا۔ نہ حکومتی سطح پر اور نہ ہی سکیورٹی کے حوالہ سے سسٹم کو کوئی حرکت دی گئی۔ چار دندناتے پھرتے رہے اور وقت کے حکمران نے اخبارات میں وانٹڈWantedکے اشتہارات کی تشہیر تک خود کو محدودرکھنے میںاپنی عافیت سمجھی۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ قافلہ آگے بڑھتا رہا اور اس کے ساتھ ہی وہ سب کچھ ہوتا رہا جو کشمیر کی عصری اور ماضی قریب کی تاریخ کاایک ناقابل فراموش باب بن چکاہے۔
لیفٹنٹ گورنر کے بیان کے ساتھ اتفاق نہ کرنے کی بظاہرکوئی وجہ نہیں ہے۔ ۱۹۴۷ء میں ’ہم کشمیر ی ہیں تیار حملہ آور خبردار‘، ۱۹۶۵ء میں آپریشن جبرالٹرکی ناکامی میںاہم اور کلیدی کردار کی ادائیگی، ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد خطے میں بدلے حالات اور نئے سیاسی منظرنامے کی تشکیل کو محسو س کرتے ہوئے عوامی سطح پر قومی دھارے سے اور زیادہ وابستگی یہ محض چند ایک مثالیں ہیںجو اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ کشمیر فطرتاً امن پسند تھا اور امن پسند ہے ۔ کشمیر بحیثیت مجموعی امن اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ کا گہوارہ رہا ہے جس کی تصدیق مہاتما گاندھی بھی ان الفاظات کے ساتھ کر چکے ہیں کہ ’’برصغیر میں قتل وغارت کے تناظرمیں مجھے صرف کشمیر سے اُمید کی کرن دکھائی دے رہی ہے‘‘۔
یہی وہ مخصوص پس منظر رہا ہے جو گذرے برسوں کے دوران سنجیدہ فکر اور حساس حلقوں کی فکر مندی اور تشویش کا بھی موجب بناہوا ہے اور وہ یہ مطالبہ بار بار کرتے رہے ہیں کہ اس سار ے معاملے پر ایک وائٹ پیپر اجرا کیا جاناچاہئے تاکہ ذمہ داری کا بھی تعین ہوسکے اور اصل ذمہ داروں کی بھی نشاندہی ہوسکے۔
کیا یہ دوغلا پن نہیں کہ اُس دور کے بعض سیاستدان آج کی تاریخ میں خود کو دودھ کا دھلا جتلانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور کچھ نئے گمراہ کن نعرے اختراع کرکے خود کو ایک نئے لبادے میں چھپ کراپنے لئے سیاسی پناہ گاہیںتلاش کررہے ہیں۔ کیا یہ کشمیر کا المیہ نہیںکہ جو اُس دور میں حوالوں سے وابستہ رہا اور حکومتی عہدوں پر متمکن رہ کر سیاہ کاریاں انجام دیتے رہے آج کی تاریخ میںخود کو نئے اوتاروں کے روپ میںپیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
گذرے تین برسوں کے دوران جموں وکشمیر کے اہم عوامی اہمیت کے اداروں کے انتخابات کرائے گئے جن میں پنچایت، ضلع ترقیاتی کونسل، بلدیاتی ادارے وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں جن کیلئے ہزاروں نوجوان جمہوری طرزعمل اور منصفانہ طریقہ کے ساتھ منتخب ہوئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ستھر سال کے دوران خودساختہ عوامی حکومتوں نے کیوں اور کن سیاسی مصلحتوں اور اپنے مخصوص اغراض ومقاصد کی تکمیل کیلئے ان اداروں کے انتخابات نہیں کرائے؟ یہاں تک کہ دہلی میں برسراقتدار کانگریس کی قیادت میںحکومتی آشیرواد کے ساتھ اسمبلی کا ہر الیکشن فراڈ اور دھاندلیوں سے عبارت رہا، کیوں کشمیر کیلئے بحیثیت مجموعی جمہوری راستے پر گامزن ہونے کے یہ راستے محدود رکھے گئے جبکہ سیاسی مافیاز اور کورپشن مافیاز کے نئے نئے محاذ کھولے جاتے رہے اوران کی سرپرستی کی جاتی رہی۔
بہرحال گورنر نے جس ترقیاتی منظرنامے کے خدوخال پیش کئے ہیں اُس منظرنامہ کا استفادہ جموںوکشمیر کے نوجوان طبقے کو ہورہاہے۔سرکاری ملازمت سب کیلئے ممکن نہیں لیکن خود روزگار کے حوالہ سے جو سکیمیں اور پروجیکٹ دردست لئے جارہے ہیں وہ نوجوان مخصوص ہیں جبکہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند لڑکیوں اور خواتین کیلئے بھی مختلف سکیموں کے تحت خود روزگار کے وسائل میسر رکھے جارہے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیںکہ جموں وکشمیر میں قدرتی وسائل اور ذرائع کی بہتات ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ان وسائل کو بروئے کار لایاجائے۔ کشمیر کی مٹی بہت ذرخیز ہے البتہ جسم، ذہن اور صلاحیتوں کو نم کرنے کی ضرورت ہے۔