سرینگر//(ویب ڈیسک)
بھارت اور چین کے درمیان مشرقی علاقے لداخ میں سنہ۲۰۲۰ میں ہونے والی کشمکش ابھی بھی موجود ہے، حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان فوج کمانڈروں کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کے ۱۶ دور ہو چکے ہیں۔
تاہم، اس دوران اچھی خبر یہی ہے کہ دونوں ممالک نے مزید مذاکرات سے انکار نہیں کیا ہے۔
۱۷جولائی کو دونوں ممالک کے درمیان فوجی کمانڈرز کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات میں تعطل ختم کرنے کا کوئی پائیدار حل تو نہیں ڈھونڈا جا سکا لیکن دونوں یہ بات یقینی ہے کہ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مسئلے کو باہمی تعاون سے حل کیا جائے گا۔
لائن آف ایکچویل کنٹرول کے حوالے سے ابھی بھی کئی نکات پر تعطل ہے اور سرحدی تنازع ابھی بھی جاری ہے۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بھی پھل پھول رہی ہے۔ اگر اعداد و شمار کو دیکھیں تو انڈیا اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات انتہائی بہتری کی سطح پر ہیں۔
بھارت کی وزارتِ تجارت اور صنعت کے ڈیٹا سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ درآمدات کے حوالے سے انڈیا کا چین پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔
وزارت کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سنہ۲۰۲۱۔۲۰۲۲ کے درمیان ۱۱۵؍ارب ڈالر کی تجارت ہوئی ہے، جو کہ گزشتہ برس۸۶؍ ارب ڈالر تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ چین سے درآمدات میں بھی اضافہ ہوا۔ اس سال انڈیا نے چین سے۹۴؍ ارب ڈالر کا سامان درآمد کیا ہے جو کہ گزشتہ برس۳ء۶۵؍ ارب ڈالر تھا۔
بھارت کے میڈیا نے چین کی حکومت کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ سال۲۰۲۲ کے پہلے نصف تک دونوں ممالک میں ۰۸ء۶۷؍ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس نے وزیرِ اعظم نریندرا مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’جبکہ انڈیا اور چین کی مسلح فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں، مودی دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھا رہے ہیں۔‘
کانگریس پارٹی نے اپنے سرکاری ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹ کیا کہ ’وزیرِ اعظم چین کو اپنی سرخ (غصے بھری) آنکھیں دکھانے کی باتیں کرتے ہیں، جس کا حقیقت میں مطلب ہے انڈیا اور چین کے درمیان۰۸ء۶۷؍ ارب ڈالر کی تجارت۔ جبکہ دوسری طرف چین سرحد پر دھمکاتا ہے۔‘
مودی کو نشانہ بناتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مودی کا ’ انڈیا کا خود پر انحصار‘ کا نعرہ اب چین پر انحصار بن گیا ہے۔
بھارت کے اکثر فرنٹ لائن اخبارات نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی خبر شائع کی ہے۔ کئی اخبارات نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ انڈیا تو چین سے درآمدات کو بڑھا رہا ہے لیکن انڈیا سے چین کو برآمد ہونے والی اشیا ابھی بھی نسبتاً کم ہیں۔
۲۰ جولائی کو فائنانشیئل ڈیلی منٹ نے لکھا کہ خود پر انحصار کے نعروں کے باوجود انڈیا کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔تجارتی خسارے کے مطلب ہے کہ انڈیا نے چین سے زیادہ چیزیں خریدی ہیں اور اسے کم بیچی ہیں۔
بھارت کے سٹریٹیجک امور کے ماہر براہم چیلانی نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ دہلی کی کوئی سٹریٹیجک سوچ نہیں ہے۔
اپنی ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ مودی حکومت سنہ ۲۰۲۱ میں چین کے ساتھ سرحدی تنازع کے درمیان تجارت میں۵۰فیصد اضافے کا جواز کس طرح پیش کر سکتی ہیں‘جس میں جنوری اور نومبر کے دوران۵ء۶۱؍ارب ڈالر کا سرپلس (اضافہ) چین کے حق میں ہے، جو کہ اس مالی سال میں تقریباً انڈیا کے کل دفاعی اخراجات جتنا بنتا ہے۔