سرینگر///
جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کی ایک مقامی عدالت نے جمعہ کے روز ایک شخص کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی جس پر مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والی ایک۷۰سالہ سیاح کے ساتھ تین ماہ قبل مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں عصمت دری کرنے کا الزام ہے ۔
یہ افسوس ناک واقعہ سال رواں کے ماہ مارچ میں پیش آیا۔
پرنسپل سیشن جج‘ اننت ناگ، طاہر خورشید رینا نے اپنے حکم میں مشاہدہ کیا کہ قابل احترام اور بزرگ مہمان کے ساتھ’صوفیوں اور سنتوں‘کی سرزمین پر اس قدر افسوس ناک سلوک کیا گیا کہ وہ کشمیر آنے کے اپنے انتخاب پر ہمیشہ پچھتائے گی۔
رینا نے کہا’’یہ مبینہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے ،قابل مذمت ہے ، اور اس واقعے کو اس معاشرے کے شعور کو جھنجوڑنا چاہیے تھا جو دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ثقافت موروثی اخلاقی قدروں پر مبنی ہے ،لیکن اب یہ سب کچھ لرز گیا ہے ۔ ایک معزز مہمان، جو ایک بزرگ خاتون تھی، اور وہ اولیاء اور بزرگوں کی اس سرزمین کے دورے پر آئی ہوئی تھی، اس کے ساتھ اس قدر بدتمیزی اور چونکا دینے والا سلوک کیا گیا کہ آنے والے وقتوں کے لیے ، وہ اپنے بڑھاپے کے دنوں میں اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے لیے اس جگہ کے انتخاب پر پچھتائے گی‘‘۔
پرنسپل سیشن جج کا کہنا تھا’’یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے جس کو نظر انداز کر دیا جائے ، بلکہ معاشرے میں رائج ایک اعلیٰ درجے کی بدحالی اور بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جس سے سر شرم سے جھک جانا چاہیے اور یہ ایک سنجیدہ خود احستابی کی دعوت دیتا ہے کہ یہ معاشرہ کیا تھا، اور اب یہ کس طرح زمین بوس ہوا ہے ‘‘۔
استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ مہاراشٹر کی ایک۷۰سالہ بیوہ، جو اپنے بیٹے کے خاندان کے ساتھ’کشمیر کی خوبصورتی‘سے لطف اندوز ہونے کیلئے پہلگام میں تھی، کے ساتھ مبینہ طور پر ملزم نے جنسی زیادتی کی ہے ۔انہوں نے عدالت کو بتایا’’پہلگام میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں اس کے اکیلے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، ملزم مبینہ طور پر، اس کے کمرے میں داخل ہوا، اس کا منہ کمبل میں باندھ کر، اس کی عصمت دری کی، اسے زخمی کیا، اور پھر کمرے کی کھڑکی سے فرار ہو گیا۔ اس پر اس قدر وحشیانہ جنسی حملہ کیا گیا کہ عمر رسیدہ خاتون بیٹھنے اور حرکت کرنے کے قابل نہیں رہی اور کئی دن تک درد میں مبتلا رہی‘‘۔
عدالت نے کہا کہ کہ اس کیس کی تحقیقات جاری ہے اور کیس ڈائری (سی ڈی) فائل کو پہلی نظر میں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ملزم کی جانب سے ایک بزرگ خاتون پر انتہائی گھناؤنے طریقے سے عصمت دری کے جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے ۔ملزم نے اس بنیاد پر ضمانت کیلئے درخواست دائر کی تھی کہ پولیس نے اس کے اور اس کے والد کے خلاف کچھ ’ذاتی رنجشوں‘کی وجہ سے اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا ہے ۔تاہم، عدالت نے کہا کہ ’’یہ عدالت اس مرحلے پر ضمانت کی گذارش کے ساتھ قانونی طور پر مفاہمت نہیں کرتی ہے ، جس کو مسترد کر دیا جاتا ہے ‘‘۔
پرنسپل سیشن جج نے کہا کہ یہ عدالت، جو ہر روز اس معاشرے کی ’پرابٹی‘سطح کا مشاہدہ کرتی ہے ، تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ یہ معاشرہ مختلف محاذوں پر ناامیدی سے ختم ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا’’جتنی جلدی اس معاشرے کے شیٹ اینکرز، با شعور افراد، مخیر حضرات معاشرے کے اخلاقی محاذ پر ہو رہے غلط کے خلاف آواز بلند کریں گے اتنا ہی بہتر ہو گا کہ کشمیر کو اس کے حقیقی معنوں میں جنت بر زمین ہے ، کو بچا لیا جائے ‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’محض سر سبز و شاداب میدان، پہاڑ، جنگلات، چشمے ، دریا، ندی نالے اور باغات کشمیر کیلئے مطلوبہ سیاحتی مقام کے طور پر کام نہیں آئیں گے ‘‘۔
عدالت کے حکم کا آغاز اردو کے اس شعر ’راستے میں سنگریزوں نے دیا پانی مجھے ‘ ذرہ ذرہ ہے میرے کشمیر کا مہماں نواز‘سے ہوتا ہے ۔
رینا نے کہا کہ کشمیر کے شاندار ثقافتی اقدار اور مہمان نوازی کے بہترین امتزاج نے دنیا بھر کے سیاحوں کو کشمیر کی بے مثال خوبصورتی دیکھنے ، تجربہ کرنے اور لطف اندوز ہونے کی طرف راغب کیا ہے جسے اکثر ’زمین پر جنت‘کہا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا’’ان سیاحوں نے بدلے میں، کشمیر کی ثقافت اور اقدار کے نظام کو اس سطح پر فروغ دیا ہے جو تہذیب کے عالمی معیار سے میل کھاتا ہے‘‘۔
پرنسپل سیشن جج نے مزید کہا ’’اس واقعہ نے کشمیر کی متذکرہ میراث کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے‘بدقسمتی سے پہلگام آج دنیا میں اچھی وجوہات کی بناء پر نہیں جانا جاتا ہے جس کیلئے یہ جگہ سالہا سال تک ملک اور دنیا کے سیاحتی نقشے پر مشہور تھی۔‘‘