پاکستان کے نائب وزیرا عظم‘ اسحاق ڈار جو اس ملک کے نائب وزیر اعظم بھی ہیں نے الجزیرہ کو اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت کرے اور انہیں کسی بھی دہشت گرد حملے سے محفوظ رکھے ۔ ڈار کاکہنا تھا کہ ان کا ملک پاکستان میں کسی بھی دہشت گرد حملے کے بعد کسی ملک پر انگلی نہیں ٹھاتا ہے کیونکہ یہ اس کا کام ہے کہ ملک اور اس کے شہریوں کو کیسے محفوظ رکھا جائے ۔
ان کے اس بیان کو ابھی کچھ ہی دن ہو ئے تھے کہ بلوچستان کے خصدار علاقے میں ایک سکولی وین پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں ۴ ؍اسکولی بچے ہلاک اورمتعدد زخمی ہوگئے ۔ اس حملے کے فوراً بعد پاکستان کی فوج اور سویلین حکومت‘ جس کی ڈار نمائندگی کرتے ہیں ‘ نے اس حملے کیلئے بھارت کو ذمہ دار ٹھہرایا دیا اور یوں ڈار کے اس عویٰ کی دھجیاں فضا میں بکھیر دیں کہ ان کا ملک دہشت گردی کے کسی واقع کے بعد الزام تراشی میں یقین نہیں رکھتا ہے ۔
بھارت میں پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی کی ایک لمبی اور طویل تاریخ ہے۔ اس دہشت گردی کا کشمیر سب سے زیادہ شکار بنا ہوا ہے جبکہ ملک کے کچھ ددوسرے حصوں میں بھی پاکستان کی حمایت یافتہ دہشت گردی کی وجہ سے معصوم لوگوں کی جانیں چلی گئیں ۔
خصدار واقعہ کے بعد اس کا الزام بھارت پر ڈال کر پاکستان نے خود اپنی پوزیشن مضحکہ خیز بنا دی ۔ اس کا مقصد پہلگام واقعہ سے پلہ جھاڑنا بھی ہے جس میں اس کی خفیہ ایجنسی کے اشاروں پر ۲۶ معصوم لوگوں کا خون بہادیا گیا ۔ خصدار واقعہ کیلئے بھارت کو ذمہ دار ٹھہرانے کی پاکستان کی کوشش کا دنیا پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کا عالمی مرکز اگر کوئی ملک ہے تو وہ پاکستان ہے ۔ دنیا کو معلوم ہے کہ انتہائی مطلوب ترین دہشت گرد اگر کہیں موجود ہیں تو وہ پاکستان میں ہیں‘ اگر انہیں کہیں گرفتار کیا گیا تو پاکستان سے کیا گیا اور اگر انہیں مارا گیا تو اسی ملک میں نشانہ بنایا دیا گیا ۔ایک ہی مثال کافی ہے اور وہ اوسامہ بن لادن کی ہے ‘ جو پاکستان کے ایک فوجی اڈے کی بالکل ہمسائیگی میں کئی برسوں تک چھپا رہا اور بالآخر اسے اسی جگہ ڈھیر بھی کردیا گیا ۔
پاکستان کی اعانت یافہ دہشت گردی سے جموں کشمیر میں ہزاروں معصوم اور بے گناہ لوگ مارے گئے جبکہ کم و بیش ۳۰ سال تک ایسی افراتفری بھی رہی کہ لوگ جینا بھی بھول گئے ۔
جمعہ کو پاکستان نے اقوام متحدہ میں پہلگام حملے کے ردعمل میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا معاملہ اٹھائے ہو ئے اسے اعلان جنگ قرار دیا ۔ پاکستانی نمائندے نے کہا کہ پانی زندگی ہے ‘ جنگ کا کوئی ہتھیا ر نہیں ہے اور یہی حقیقت بھی ہے‘ لیکن ایسا کہنے کے دوران پاکستان کے نمائندے یہ بھول گئے کہ ان کے ملک نے ۳۵ برسوں سے جموں کشمیرمیں جو درپردہ جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے ۔
بھارت نے ۶۵ سال قبل سندھ طاس معاہدے میں نیک نیتی سے کیا۔ اس معاہدے کے دیباچے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ روح اور دوستی کے ساتھ کیسے طے پایا۔ ۶۰/۶۵ برسوںکے دوران، پاکستان نے بھارت پر تین جنگیں اور ہزاروں دہشت گردی کے حملے کئے ‘کیا وہ اس معاہدے کی روح کی خلاف ورزی نہیں ؟ پچھلے چار عشروں میں زائد از۴۰ہزار ہندوستانیوں کو پاکستان کی اعانت یافتہ دہشتگردی کے حملوں میںمارا جا چکا ہے‘لیکن بھارت نے اس دوران غیر معمولی صبرکا مظاہرہ کیا ہے۔
سابق وزیرا عظم ‘آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کہا کرتے تھے آپ دوست بدل سکتے ہیں ‘ لیکن ہمسایہ نہیں ‘ اور اسی جذبے کے تحت بھارت کی حکومتوں ‘ پھر چاہے وہ کانگریس کی قیادت میں تھیں یا پھر بی جے پی کی ‘ بشمول موجودہ وزیر اعظم ‘ نریندرا مودی نے پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور جواب میں دھوکہ اورفریب ملا ‘ جواب میں کبھی کرگل ملا ‘ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا ‘ممبئی حملے ہو ئے اور پٹھان کوٹ کے فوجی اڈے پر حملہ کیا گیا ۔
فیصلہ بھارت کو نہیں بلکہ پاکستان کو کرنا ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرنا چاہتا ہے ۔ بھارت نے فیصلہ کیا ہے ‘ اس نے سرخ لکیر کھینچ لی ہے اور پاکستان جب بھی اور جہاں بھی اس لکیر کو پار کرنے کی کوشش بھی کرے گا اسے اس کے گھر میں گھس کر جواب دیا جائیگا ۔
پاکستان کے پاس اب بھی موقع ہے ۔وہ جس را ہ پر چل پڑا ہے اس کی منزل تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ہے‘ کچھ نہیں ہو سکتی ہے ۔وہ اس راستے سے پلٹ جائے اور دہشت گردی کو بطور ایک آلہ استعمال کرنے سے گریز کرے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو وہ دن دور نہیں جب دہشت گردی کا یہ عفریت اسے ہی کھا جائے گا ۔
خصدار جیسے واقعہ اسی جانب اشارہ بھی کررہے ہیں ۔بھارت پر الزام لگانا سے پاکستان کچھ حاصل نہیں کر سکتا ہے ۔ دنیا میں اس کی کوئی سننے والا نہیں ہے ۔اس کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ دہشت گروں اور دہشت گردی کی پرورش کرنا چھوڑ دے اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ۔
پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے اور اگر یہی دہشت گردکبھی خصدار تو کبھی کسی اور جگہ سر اٹھا تے ہیں تو اس کا ذمہ دار یہ خود ہے کوئی اور نہیں کہ انسان جو بوئے گا وہی پائے گا۔