حیدرآباد// لوک سبھا میں اپوزیشن راہل گاندھی نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ بھارت سمٹ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں نئی سیاست کے قیام کے لئے درکار خیالات کو جنم دے گی۔حیدرآباد میں دو روزہ بھارت سمٹ کے آخری دن اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج عوامی جلسوں اور سڑکوں پر لوگ مجھ سے ملتے ہیں اور مشترکہ انسانیت کے اس جذبہ کو گلے لگاتے ہیں۔
انہوں نے کہا چاہے نفرت کتنی ہی پھیلائی جائے ، محبت اور الفت کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ ہماری سیاست سننے ، محبت کرنے اور عوام سے حقیقی رابطہ پر مبنی ہونی چاہیے جن کی ہم خدمت کرتے ہیں۔[؟]راہل گاندھی نے کہا کہ پالیسی پر اختلافات ہمیشہ رہیں گے ، تاہم جہاں بعض افراد،غصہ اور خوف کی عینک سے دنیا کو دیکھتے ہیں، وہیں ہمیں محبت، الفت اور ہمدردی کے زاویہ سے دنیا کو دیکھنا ہوگا۔سابق کانگریس صدر نے کہا کہ یہ ان کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ وہ نئی سیاست کی تعمیر میں سب کے ساتھ کام کر رہے ہیں، جس کی ہندوستان اور دنیا کو فوری طور پر ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا [؟]جمہوری سیاست دنیا بھر میں بنیادی طور پر بدل چکی ہے ۔ جو اصول ایک دہائی قبل لاگو ہوتے تھے ، اب ان کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔
پرانے اوزار اب سرمایہ، میڈیا اور سوشل میڈیا کے آگے نہیں ٹھہر سکتے ۔راہل گاندھی نے نشاندہی کی کہ سیاستدانوں کا پرانا ماڈل اب فرسودہ ہو چکا ہے ، اب ایک نئے قسم کی قیادت تیار کرنا ضروری ہے ۔ یہی ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب کانگریس پارٹی کے اندر بھی ہم خود کو محصور محسوس کرتے تھے ۔ مخالفت کے تمام راستے منظم طریقہ سے بند کر دئیے گئے تھے اور ماحول گھٹن زدہ تھا۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم نے تاریخ کی طرف رجوع کیا اور فیصلہ کیا کہ کنیاکماری سے کشمیر تک تقریباً 4000 کلومیٹر کا سفر پیدل چلیں گے ۔
راہل گاندھی نے کہا یاترا کے دوران میں نے دو اہم سبق سیکھے ۔ پہلا یہ کہ ہماری مخالفت غصے ، خوف اور نفرت پر اجارہ داری رکھتی ہے ۔یہ ایسے میدان ہیں جن میں ہمیں مقابلہ نہیں کرنا چاہیے ۔ ہمیں ایسے مواقع تلاش کرنے تھے جہاں ہم کو برتری حاصل ہو اور ہم ایک مضبوط متبادل بیانیہ تیار کر سکیں۔[؟]انہوں نے بتایا کہ یاترا کے دوران ہزاروں لوگ ہم سے آ ملے ۔ میرا بنیادی کردار چلنا اور سننا تھا۔ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر کوئی، بغیر کسی رکاوٹ کے ، ہم سے آ کر بات کر سکے ۔ وقت کے ساتھ مجھے احساس ہوا کہ اگرچہ میں بولنا اور سوچنا جانتا تھا، لیکن میں نے کبھی صحیح معنوں میں سننا نہیں سیکھا تھا۔جیسے جیسے سفر آگے بڑھا، گفتگو کم ہوتی گئی اور گہری سننے کی کیفیت غالب آ گئی۔