سرینگر/25 اپریل
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کو کہا کہ پہلگام حملے کے بعد مرکز کی جانب سے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ (آئی ڈبلیو ٹی) کو روک دیا گیا ہے جو مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لوگوں کےلئے ’سب سے غیر منصفانہ دستاویز‘ ہے اور وہ کبھی بھی اس کے حق میں نہیں رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت ہند نے کچھ اقدامات کئے ہیں۔ جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے، ہم ایمانداری سے کہیں تو ہم کبھی بھی سندھ طاس معاہدے کے حق میں نہیں رہے ہیں۔
اس حملے ‘جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، کے بعدہندوستان نے بدھ کو پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو کم کر دیا تھا اور متعدد اقدامات کا اعلان کیا تھا، جن میں پاکستانی ملٹری اتاشی کو ملک بدر کرنا، 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور اٹاری لینڈ ٹرانزٹ پوسٹ کو فوری طور پر بند کرنا شامل ہے۔
آئی ڈبلیو ٹی پر مرکز کے فیصلے کے بارے میں پوچھے جانے پر عمرعبداللہ نے کہا کہ جموں کشمیر کا ہمیشہ سے ماننا رہا ہے کہ آئی ڈبلیو ٹی اپنے لوگوں کے لئے سب سے غیر منصفانہ دستاویز ہے۔انہوں نے مزید کہا”اب اس کے درمیانی اور طویل مدتی اثرات کیا ہیں، یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا ہمیں انتظار کرنا ہوگا“۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا حکومت شہید ہونے سے پہلے مسلح دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے مرکبان سید عادل حسین شاہ کی بہادری کا بدلہ دے گی، عبداللہ نے کہا”یقینا ایسا ہی ہو گا “۔
وزیر اعلیٰ نے کہا ”وہ (شاہ) نہ صرف کشمیریت بلکہ کشمیری مہمان نوازی کی علامت ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف انہیں اور ان کے اہل خانہ کو انعام دیں بلکہ اس یاد کو ہمیشہ زندہ رکھیں“۔
وزیر اعلی نے کہا کہ حکومت ایسا کرنے کےلئے ایک مناسب طریقہ کار تلاش کرے گی۔انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ مہاراشٹر کے ٹور اینڈ ٹریول آپریٹرز نے شاہ کی فیملی کو گود لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اب سے ان کی تعلیم مکمل ہونے تک ان کی تمام تعلیمی ضروریات کا خیال رکھا جاسکے اور آنے والے دنوں اور سالوں میں فیملی کی مدد کی جاسکے۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ جمعے کے اجلاس میں ہلاکتوں کی مذمت کی گئی اور اس طرح کے حملوں کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھائی گئی۔ان کاکہنا تھا”میں اجلاس کے تمام شرکاءکا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ حملہ ہمارے نام پر نہیں کیا گیا تھا اور وہ اس کے حق میں نہیں تھے اور نہ ہی مستقبل میں ہوں گے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ایسا ہوا“۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت کے سامنے کچھ تجاویز رکھی گئی ہیں تاکہ مستقبل میں ایسی چیزیں نہ ہوں۔ میں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ تمام تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سیاحت ی صنعت کو ہونے والے کاروباری نقصانات پر کوئی بات چیت ہوئی ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس وقت ہم روپے اور پیسے نہیں گن رہے ہیں۔ان کاکہنا تھا”میں سمجھتا ہوں کہ اس اجلاس کے تمام شرکاءاور اسٹیک ہولڈرز کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی کاروبار کے نقصان پر افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا کیونکہ میرے کمرے خالی ہیں، یا ہاو¿س بوٹس خالی ہیں یا ٹیکسی خالی ہے“۔
عمرعبداللہ نے کہا”ان سبھی نے کہا کہ کاروبار آتا ہے اور جاتا ہے، اس وقت یہ ہماری فکر نہیں ہے۔ ہماری تشویش اس حملے میں ہلاک ہونے والے 26 افراد کے اہل خانہ کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کرنا ہے“۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مستقبل میں ایک وقت آ سکتا ہے جب ہم بیٹھ یں گے اور جموں و کشمیر کی معیشت پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے مالی مضمرات پر تبادلہ خیال کریں گے۔
عمرعبداللہ نے کہا”لیکن، شرکاءمیں سے کسی نے بھی آج اس اجلاس کا استعمال کاروباری نقصانات کے بارے میں بات کرنے کے لئے نہیں کیا یا حکومت سے کسی بھی قسم کے معاوضے کا مطالبہ نہیں کیا۔ میرے خیال میں اس کا سہرا ہمارے کاروباری اداروں کو جاتا ہے“۔
وادی کے آس پاس کی مساجد میں حملے کی مذمت پر عمرعبداللہ نے کہا کہ یہ ان تمام لوگوں کا جواب ہے جو کشمیری عوام کے خلاف زہر اور نفرت پھیلا رہے ہیں۔
ان کاکہنا تھا”جامع مسجد میں دو منٹ کی خاموشی ان تمام چینلز کا جواب ہے جو کشمیریوں کے خلاف زہر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بے شرم چینل یہ نہیں دکھائیں گے کیونکہ ان کے چینل اس طرح کی چیزیں دکھا کر نہیں چل سکتے“۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ چینل نفرت پھیلا کر چل رہے ہیں۔ کاش ان چینلز میں ہمت ہوتی۔” مجھے یہ کہنے پر افسوس ہے لیکن ان میں سے کچھ چینلز کے اینکر بزدل ہیں، وہ سچ کی حمایت نہیں کرتے“۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہوں نے سچائی کی حمایت کی ہوتی تو وہ دنیا کو بتاتے کہ کشمیر کی تاریخی جامع مسجد میں پہلگام کے 26 متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
جامع مسجد میں نماز جمعہ کے آغاز سے قبل کشمیر کے میرواعظ‘میر واعظ عمر فاروق اور مسجد میں موجود لوگوں نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
جموں و کشمیر سے باہر کشمیریوں کو ہراساں کیے جانے کی خبروں کے بارے میں عمرعبداللہ نے کہا کہ انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا ہے۔
ان کاکہنا تھا”میں نے اس میٹنگ کے دوران ہی وزیر داخلہ سے بات کی تھی۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ طلباءیا تاجروں یا دیگر کی حفاظت کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے“۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ایڈوائزری جاری کی جائے گی اور وزیر داخلہ نے خود اس سلسلے میں کچھ وزرائے اعلیٰ سے بات کی ہے۔ میں نے اپنے ہم منصبوں سے بھی بات کی ہے اور ایسی جگہوں پر ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ان کے کابینہ کے ساتھی ان ریاستوں کا دورہ کریں گے اور وہاں کی حکومتوں کے ساتھ رابطہ کریں گے تاکہ جو بھی ضروری قدم اٹھایا جاسکے۔ (ایجنسیاں)