سرینگر//
وادی کشمیر کے ممتاز عالم دین اور نامور مذہنی لیڈر علامہ آغا سید محمد باقر الموسوی مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے ۔ وہ۸۵برس کے تھے ۔
خاندانی ذرائع کے مطابق انہوں نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال (ایس ایم ایچ ایس) میں زندگی کی آخری سانسیں لیں جہاں وہ گذشتہ ایک دو دن سے زیر علاج تھے ۔
آغا صاحب کے انتقال کی خبر پھیلتے ہی قصبہ بڈگام میں ماتم کا ماحول سایہ فگن ہوا اور ہر طرف سے آہ و فغاں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔
جمعہ علی الصبح ہی وادی کے اطراف و اکناف سے لوگ ان کی رہائش گاہ واقع بڈگام میں جمع ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی قصبے میں لوگوں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔
قصبہ بڈگام میں آغا صاحب کے احترام میں تمام دکانیں بند اور کارو باری سرگرمیاں معطل رہیں تاہم لوگوں کی سہولیات کیلئے ٹرانسپورٹ کی نقل و حمل جاری رہی۔
آغا مرحوم کو نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کے آبائی قبرستان میں سسکیوں، نالہ و فریاد کے بیچ سپر خاک کیا گیا۔
ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن میں مذہبی و سیاسی لیڈروں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی۔
آغا سید محمد باقر بڈگام کے معروف آغا خاندان کی ایک انتہائی ممتاز و معتبر شخصیت تھے ۔انہوںنے ابتدائی دینی تعلیم جامع باب العلم بڈگام سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے لئے نجف اشرف کا رخ کیا جہاں انہوں نے کئی برس اس وقت کے نامی گرامی فقہا کے سامنے تلمذ کیا اور فقہو دیگر اسلامی علوم پر کما حقہ عبور حاصل کیا۔
مرحوم۱۹۸۲میں واپس وطن لوٹے اور اپنی پوری زندگی خدمت دین میں صرف کی۔ تبلیغ دین اور دینی کتب کے تصنیف و تالیف آپ کی مصروفیات کا مرکز رہا۔ مرحوم ہر جمعہ اپنی رہائش گاہ پر خطبہ دیتے تھے جس سے فیضیاب ہونے کے لئے بلا لحاظ مسلک بڑے اسکالر آتے تھے ۔
آغا صاحب علم و عرفان کے درخشاں ستارے کی حیثیت سے معروف تھے انہیں علم فقہ، عربی، فارسی، اردو اور کشمیری ادب پر ملکہ حاصل تھا۔
دریں اثنا وادی کے مذہنی، سماجی و سیاسی لیڈروں نے ان کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے ۔
وزیرا علیٰ عمر عبداللہ نے آغا صاحب کے انتقال پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کی جموں و کشمیر میں مذہبی فکر، سماجی ہم آہنگی اور عوامی خدمت میں ان کی گہرا شراکتیں اپنے پیچھے ایک میراث چھوڑ گئی ہیں جس کو گہرے احترام کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔
عمرعبداللہ نے’ایکس‘پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا’’انا للہ و انا الیہ راجعون، ممتاز شیعہ عالم دین اور مذہبی رہنما علامہ آغا سید محمد باقر الموسوی کے انتقال پر گہرا دکھ ہوا ہے‘‘۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا’’مرحوم آغا صاحب کی جموں و کشمیر میں مذہبی فکر، سماجی ہم آہنگی اور عوامی خدمت میں ان کی گہرا شراکتیں اپنے پیچھے ایک میراث چھوڑ گئی ہیں جس کو گہرے احترام کے ساتھ یاد رکھا جائے گا‘‘۔انہوں نے مرحوم آغا صاحب کے لواحقین اور ان کے چاہنے والوں کی خدمت میں تعزیت پیش کی۔
پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے آغا سید باقر کے انتقال پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’قابل احترام شیعہ عالم، ممتاز مصنف اور ماہر الہیات آغا سید باقر موسوی صاحب کے انتقال کی خبر سن کر گہرا رنج ہوا‘‘۔
محبوبہ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔
علی محمد قاسمی نامی ایک اسکالر نے بتایا’’آغا صاحب کو صرف دینی علوم پر ہی عبور حاصل نہیں تھا بلکہ آپ دنیوی علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے‘‘۔قاسمی نے کہا’’آپ تاریخ پر ید طولیٰ رکھتے تھے ، بہت بڑے شاعر تھے نیز سائنسی علوم بھی جانتے تھے اور مختلف علوم کے ریسرچ اسکالر اور تشنگان علم اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے آپ کی خدمت میں بیٹھتے تھے ‘‘۔
وادی کے نامور صحافی یوسف جمیل نے ’ایکس‘پر ایک پوسٹ میں آغا مرحوم کے تئیں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’وہ (آغا سید محمد باقر) اتحاد کے علمبر دار تھے ، تمام شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے آغا سید باقر الموسوی النجفی کی انسانیت کے لیے خدمات کا اعتراف کیا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے اور الوداع کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی اور ان کی خدمات کا کسی حد تک بدلہ ادا کیا‘‘۔
جمیل نے کہا’’ یہ بھی دل کو چھو لینے والی بات ہے کہ ماتم داروں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی‘‘۔