جموں//
جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ‘ عمر عبداللہ نے بدھ کو وقف ترمیمی قانون کے خلاف قانون ساز اسمبلی میں حکمراں نیشنل کانفرنس کے اراکین اسمبلی کے احتجاج کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں نافذ کیے گئے قانون نے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لوگوں کی اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
جموں میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایوان کے زیادہ تر ارکان وقف ترمیمی قانون سے ناراض تھے اور ایوان میں اپنا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ ’’بدقسمتی سے انہیں اس معاملے پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع نہیں ملا‘‘۔
عمرعبداللہ نے کہا’’وہ اسمبلی کے اندر مسلم اکثریتی علاقے کے جذبات کی نمائندگی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جو کچھ ایوان کے اندر نہیں کیا جا سکتا، ہم اسے اس کے باہر کریں گے۔ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے بل نے جموں و کشمیر کے عوام کی اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے‘‘۔
وقف معاملے پر بحث کے اسپیکر کے مطالبے کو مسترد کرنے کے خلاف غیر بی جے پی جماعتوں کے احتجاج کی وجہ سے ایوان کی کارروائی مسلسل تین دنوں تک ملتوی ہونے کے بعد ایوان کی کارروائی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی۔
چیف منسٹر نے کہا کہ پارٹی وقف کے معاملے پر مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں تفصیل سے بتائے گی۔
اس دوران جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ وہ حال ہی میں منظور کئے گئے وقف ترمیمی بل کو لیکر سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور اس قانون کو مسلمانوں کے مذہبی اور املاک کے حقوق کی براہ راست خلاف ورزی قرار دے گی۔
نیشنل کانفرنس کے ایم ایل اے اور چیف ترجمان تنویر صادق نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہمارے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی ہدایت پر نیشنل کانفرنس سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرے گی۔
صادق نے کہا’’یہ قانونی جنگ اب اعلیٰ سطح پر لڑی جائے گی، کیونکہ یہ قانون مسلم کمیونٹی کے مذہبی معاملات میں آئینی طور پر خطرناک مداخلت ہے‘‘۔
حکمران جماعت کے ممبر اسمبلی نے کہا کہ یہ بل آرٹیکل ۱۴‘۱۵‘۲۱‘۲۵‘۲۶‘۲۹؍اور۳۰۰؍اے کے تحت فراہم کردہ بنیادی آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ملک بھر میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور حقوق پر حملہ ہے۔
نیشنل کانفرنس کی جانب سے یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب وقف ترمیمی بل کو لیکر لگاتار تین دن اسمبلی میں تعطل کا ماحول رہا۔
بی جے پی بل کے حق میں ہے جبکہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس (پی سی) اور عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) سمیت حزب اختلاف کی جماعتیں ایوان کے اندر بل پر تفصیلی بحث کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اسپیکر کی جانب سے بحث کی اجازت دینے سے بار بار انکار نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔
تاہم محبوبہ مفتی کی قیادت والی پی ڈی پی اور سجاد لون کی قیادت والی پی سی سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں نے نیشنل کانفرنس پر اسمبلی کے اندر غیر ضروری ہنگامہ کرنے کا الزام عائد کیا اور ہنگامہ آرائی کو ڈرامہ قرار دیا۔