نہیں صاحب ہم گورے گورے بانکے چھورے وزیر اعلیٰ‘ اعلیٰ حضرت جناب وزیر اعلیٰ ‘ عمرعبداللہ صاحب کا شکریہ ادا نہیں کریں گے … بالکل بھی نہیں کریں گے… اس لئے نہیں کریں کہ … کہ ہمیں ان کی بات…ان کے کہے الفاظ …ایوان …اسمبلی ایوان میں دی گئی یقین دہانی پر بھروسہ نہیں ہے‘ نہیں صاحب ایسا نہیںہے … ہمیں ان کے ہر ایک لفظ ‘ ہر ایک بات ‘ ہر ایک یقین دہانی پر بھروسہ ہے… یہ بھروسہ کہ اخبار والوں اور میڈیا والوں کو سچ لکھنے اور بولنے پر کوئی سزا نہیں دی جائیگی… بالکل بھی نہیں دی جائیگی ۔ جب وزیر اعلیٰ اسمبلی میں یہ بیان دے رہے تھے تو… تو حکمران جماعت کے ممبران نے ان کی اس بات کا ‘ اس یقین دہانی کا میزیں تھپتھپا کے خیر مقدم کیا ‘ استقبال کیا… لیکن صاحب ہم سے اس کی امید نہ رکھئے ‘ ہم سے اس کی توقع ہر گز نہ رکھئے کہ ہم وزیر اعلیٰ کے اس بیان ‘ اس اعلان کا شکریہ کریں گے اور… اور نہ شکریہ ادا کریں گے اور… اور اس لئے نہیں کریں گے کیوں … کیوں کہ وزیر اعلیٰ صاحب نے یہ اعلان کرکے ہمیں کچھ نیا نہیں دیا … کوئی انوکھی چیز نہیں دی ہے… بلکہ انہوں نے ہم سے وہ دینے کی بات کی ہے… جو ہم سے چھین لیا گیا تھا… ۶ سال پہلے چھین لیا گیا تھا ‘ اس پر ڈاکہ ڈال دیا گیا ہے ‘ ا س کو لوٹا گیا تھا… وزیر اعلیٰ اسی سب کو … پریس کی آزادی کو واپس دینے کی بات کہہ رہے ہیں… اب آپ ہی بتائیے کہ اگر آپ کی کوئی چیز چھین لے اور… اور پھر اسے لوٹا دے تو… تو آپ تھوڑے ہی نا اس کا شکریہ ادا کریں گے… بلکہ اسے گھوریں گے ‘ دو چار باتیں بھی سنائیں گے… کہ تم نے ہماری اس چیز کو چرا کیوں تھا …اور اب تم اگر ہماری چرائی ہو ئی چیز کو لوٹا رہے ہو تو… تو ہم سے شکریہ کی کوئی امید نہیں رکھنا … بالکل بھی نہیں رکھنا… ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھلا وزیر اعلیٰ نے کب اور کیسے پریس کی آزادی کو چھین لیا تھا… یقینا انہوں نے نہیں چھین لیا تھا … انہوں نے نہیں چرائی تھی… لیکن جس نظام کا اب یہ حصہ بنے ہیں … جس سسٹم میں یہ جناب موجود ہیں… اسی نظام اور سسٹم نے ہم سے ہماری آزادی چھین لی تھی… پریس کی آزادی ۔ ہے نا؟