جموں//
جموں کشمیر پیپلز کانفرنس (پی سی) کے صدر اور ہندواڑہ سے ایم ایل اے سجاد لون نے جمعرات کو اسمبلی سے اپنے خطاب میں کشمیری بولنے والے باشندوں کی بڑھتی ہوئی پسماندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انہیں دابستہ طور پر دیوار سے لگایا جارہا ہے ۔
پارٹی کی طرف سے جاری ایک بیان میں لون نے اعداد و شمار پر مبنی ایک دلیل پیش کی جس میں باوقار عہدوں پر کشمیری بولنے والوں کی نمائندگی میں منظم کمی کو ظاہر کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ موجودہ ریزرویشن فریم ورک کمیونٹی کیلئے ’سماجی بے اختیاری‘کی ایک شکل پیدا کر رہا ہے۔
لون نے کہا کہ اسکولوں اور بچوں کی مجموعی ذہنی ساخت بہت زیادہ پریشانی سے گزری ہے۔ کشمیری بولنے والے لوگ ایک الگ نسلی گروہ تشکیل دیتے ہیں، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ، ہر امتحان میں، ان میں سے بہت کم اس میں شامل ہو رہے ہیں ‘اس لئے نہیں کہ وہ نااہل ہیں، بلکہ اس لئے کہ ان کے داخلے کی جگہ کو دبایا جا رہا ہے‘‘۔
اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے پی سی صدرنے کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس (کے اے ایس) کی بھرتیوں میں تشویش ناک رجحان کا انکشاف کیا۔ ان کے اعداد و شمار کے مطابق، حالیہ برسوں میں کے اے ایس انتخاب میں کشمیری نمائندگی میں تیزی سے کمی آئی ہے ۔۲۰۲۳ میں کامیاب امیدواروں میں سے صرف۱۹ فیصد‘۲۰۲۲ میں ۲۵ فیصد اور۲۰۲۱ میں۱۷ فیصد۔
مزید برآں، انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح موجودہ ریزرویشن سسٹم، جو تقریباً۶۰ فیصد دستیاب عہدوں کا احاطہ کرتا ہے، کشمیر کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے۔
لون نے کہا’’آٹھ فیصد درج فہرست ذات وں کے لیے ہیں، لیکن کشمیر میں ایس سی نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ ہم پر ایک اضافی بوجھ ہے‘‘۔
اسی طرح درج فہرست قبائل کے بارے میںپی سی صدر نے نشاندہی کی کہ ایس ٹی ریزرویشن کا ۴۰ فیصد فائدہ جموں اور ۶۰ فیصد کشمیر کو جاتا ہے، جس سے ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے جہاں جموں ریزرویشن کے تحت آتا ہے، اور کشمیری بولنے والے اوپن میرٹ کے تحت آتے ہیں۔
لون نے موجودہ نظام برقرار رہنے کی صورت میں کشمیر کے مستقبل کی واضح تصویر پیش کی۔ انہوں نے سوال کیا’’ میں آپ سے کہنا چاہوں گا کہ اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور ہمیں بتائیں کہ اگر آپ ۲۰ سال میں یہاں واپس آتے ہیں تو اس سکریٹریٹ میں کے اے ایس کے کتنے افسران کشمیری بولنے والے ہوں گے‘‘؟
لون نے اس تشویش کو میڈیکل ایجوکیشن تک بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا کشمیر کے موجودہ سرکردہ ڈاکٹروں نے موجودہ نظام کے تحت سرکاری میڈیکل کالجوں میں بھی داخلہ حاصل کیا ہوگا۔
ہندواڑہ کے ممبر اسمبلی نے منظم ناانصافی کو دور کرنے کیلئے ایک جامع حکمت عملی پیش کی ، جس میں ریزرویشن کوٹے کو خطے کے لحاظ سے معقول بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ نو منتخب حکومت کی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر کشمیری بولنے والے نسلی گروہ کے خدشات کو دور کریں گے اور اس مسئلے کو اس کی اہمیت میں ’نسلی‘ قرار دیا۔
لون نے مزید کہا کہ کشمیریوں کو بے اختیار کر کے ان پر سماجی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لون نے سوالیہ انداز میں کہا ’’اگر یہ رجحان جاری رہا تو بیس سال بعد آپ سول سیکریٹریٹ میں کتنے کشمیری دیکھیں گے؟‘‘
ہندوڑاہ کے ممبر اسمبلی نے خبردار کیا کہ موجودہ ریزرویشن پالیسی کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ’’یہ تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ ہم ابھی۳۰سالہ تنازعے سے باہر نکلے ہیں۔ اس وقت کا اسکرپٹ ہمارے دشمنوں نے لکھا تھا، مگر اب یہ اسکرپٹ ہم خود لکھ رہے ہیں‘‘۔
پی سی صدر نے دعویٰ کیا کہ کشمیری قبائل بھی اپنی پسماندگی کی وجہ سے ریزرویشن کے فوائد حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ’’موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر منصفانہ ریزرویشن پالیسی کو درست کرے۔‘‘
لون نے کہا کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو بیس سال بعد آپ کو سول سیکرٹریٹ میں کتنے کشمیری ملیں گے۔
پی سی صدر نے کہا کہ وہ اس کیلئے موجودہ اور نہ سابق حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں بلکہ لگتا ہے کہ دہلی سے جو بیانیہ آرہا ہے وہ یہ ہے کہ کشمیریوں کو سبق سکھاؤاور انہیں ان کی اوقات دکھاؤ۔
ہندواڑہ کے ممبر اسمبلی نے متنبہ کیا کہ موجودہ بیوروکریٹس‘ جو ریزرویشن قواعد بنا رہے ہیں‘ آگے بڑھ جائیں گے ، جبکہ منتخب نمائندوں اور آنے والی نسلوں کو سماجی انتشار کے نتائج بھگتنا ہوں گے ۔