پہلے پہل ہمیں بھی وزیر اعلیٰ کی بے بسی پر افسوس ہوتاتھا …پہلے پہل ‘ اب نہیں کہ اب تو ا ن کی بے بسی … معاف کیجئے گا ان کی قسمت پر رشک ہورہا ہے ۔پہلے پہل ہم سوچتے تھے کہ اگر ہمیں وزارت اعلیٰ کی کرسی مفت میں بھی مل جائے تو بھی ہم اسے پائے حقارت سے ٹھکرائیں گے … لیکن… لیکن اب نہیں کہ … کہ اب ہم نے اپنا من بدل لیا ہے… ہماری سوچ میں تبدیلی ‘ انقلابی تبدیلی آگئی ہے… وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کو دیکھ کر یہ تبدیلی آگئی ہے…اس لئے آگئی ہے کہ یہ ملک کے پہلے وزیر اعلیٰ ہیں… جو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر برجمان ہو کر مزے بھی لوٹ رہے ہیں… عیش بھی کررہے ہیں‘ ٹشن بھی دکھا رہے ہیں… اور ساتھ میں خود کو ہر ایک ذمہ داری سے بری الذمہ بھی قرار دے رہے ہیں… لاکھ کوشش کیجئے ‘انہیں کسی بات کیلئے ذمہ دار ٹھہرانے کی آپ لاکھ کوشش کیجئے ‘ پھر آپ عمرعبداللہ کوذمہ دار ٹھہرا نہیں پائیں گے… آپ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے … ان باتوں کیلئے جو ان کے اختیار میں ہیں اور نہ ان باتوں کیلئے جو ان کے دائرہ اختیار میں ہیں ہی نہیں ہیں… آپ کچھ نہیں کرپائیں گے … سیاحت ان کے حد اختیار میں ہے … گل مرگ میں فیشن شو ہوا… فحش فیشن شو ہوا‘ رمضان المبارک میں ہوا… اس سے لوگوں لے جذبات مجروح ہو ئے … لوگوں میں غصہ پایا گیا…لیکن وزیر اعلیٰ صاحب ‘ جو سونے کی چمچ منہ میں لے کر پیدا ہو ئے ہیںنے ایک بات‘ ایک جملہ کہہ کر خود کو بر ی الذمہ قرار دیا… کوئی بھی ذمہ داری لے نے سے انکار کیا کہ اس میں حکومت کا کوئی رول نہیں ہے… کیونکہ حکومت سے فیشن شو کی اجازت طلب نہیں کی گئی تھی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکومت سے اجازت طلب نہ کرکے کچھ بھی کر سکتا ہے… کچھ بھی اور پھر عمرصاحب کی حکومت خود کو یہ کہہ کر بچائے گی کہ جناب اس نے ہم سے اجازت طلب نہیں کی تھی ۔ملازمین… عارضی ملازمین کی کل ہڈی پسلی ایک کر دی کیونکہ وہ اپنی مستقلی کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر اتر آئے تھے… سرینگر اور جموں میں اتر آئے تھے… اور وزیر اعلیٰ نے بڑے آرام سے ملازمین پر ہوئے لاٹھی چارچ سے بھی خود کو الگ کیا کہ جناب پولیس ہمارے ماتحت نہیں ہے…جس کے ماتحت ہے ‘ اس سے پوچھ لیجئے …وزیر اعلیٰ صاحب !پوچھا تھا نا آپ سے ماتحت سیاحت کے بارے میں پوچھا تھا نا… گل مرگ کے بارے میں پوچھا تھا نا… آپ نے اس سے بھی اپنا پلہ جھاڑ لیا اور اس لئے جھاڑ لیا کیوں کہ آپ سچ میں ایک خوش قسمت وزیر اعلیٰ ہیں… بے بس وزیر اعلیٰ نہیں ‘ بالکل بھی نہیں ۔ہے نا؟