سرینگر//
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ (پی ایچ ای) کے عارضی ملازموں نے پیر کو یہاں اپنے مطالبوں کو لے کر زبردست احتجاج درج کیا۔
ملازمین نے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی تاہم اس کو ناکام بنا دیا گیا۔
اس موقع پر جموں وکشمیر ڈیلی ویجرس فورم کے ایک عہدیدار نے میڈیا کو بتایا’’ہم نے آج وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے گھیرائو کا پروگرام دیا تھا لیکن پولیس نے اس کو ناکام بنا دیا‘‘۔انہوں نے کہا’’ہم سرکار سے آسمان کے تارے نہیں مانگ رہے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ جو الیکشن منشور اور الیکشن ریلیوں میں عارضی ملازموں کی نوکریوں کی مستقلی اور منمم ویجز ایکٹ کے حوالے سے کہا گیا اس کو پورا کیا جائے ‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’بجٹ میں عارضی ملازموں کیلئے صرف ایک جملہ کہا گیا کہ ہم اس کا حل تلاش کر رہے ہیں لیکن سال۲۰۱۴سے دس سال بیت گئے ، بی جے پی ، پی ڈی پی حکومت میں ریگولرائزیشن پالیسی بنی لیکن کوئی حل تلاش نہیں کیا گیا‘‘۔
ملازمین نے کہا کہ لداخ میں عارضی ملازموں کو۱۴سے۴۵ہزار روپے جبکہ دلی میں۲۱سے۲۹ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتے ہیں ہم نے کون سی خطا کی ہے ۔انہوں نے کہا’’جموں وکشمیر کے عارضی ملازموں نے نا مساعد حالات میں لوگوں کی خدمت کی‘‘۔
ان کا کہنا تھا’’اگر ہمارے مطالبات کو پورا نہیں کیا گیا تو ہم جمعرات کو سول سیکریٹریٹ کے سامنے احتجاج کریں گے جس کی ذمہ داری سرکار پر ہوگی۔‘‘
اس دوران جموں میں پی ایچ ای ڈیلی ویجروں کے سیکریٹریٹ گھیراو پروگرام کو پولیس نے ناکام بنایا۔
اطلاعات کے مطابق جموں میں پی ایچ ای ڈیلی ویجروں نے اپنی مانگوں کو لے کر احتجاج کیا ۔
نامہ نگار نے بتایا کہ پیر کی سہ پہر جموں میں سینکڑوں کی تعداد میں ڈیلی ویجر سڑکوں پرنکل آئے اور سیول سیکریٹریٹ کی طرف پیش قدمی شروع کی۔
ممکنہ احتجاج کے پیش نظر جموں شہر میں پہلے ہی سیکورٹی فورسز کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی تاہم اس کے باوجود بھی ملازمین سڑکوں پرنکل آئے اور ایک بڑے جلوس کی صورت میں کے سی چوک تک پہنچ گئے اوروہاں پر دھرنا دیا۔
نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران ڈیلی ویجروں نے کہاکہ اگر سرکار نے جلدازجلد ان کی جائز مانگوں کو حل نہیں کیا تو پورے جموں وکشمیر میں تین روز تک پانی کی سپلائی روک دی جائے گی۔
یہ رپورٹ فائل کرنے تک جموں میں پی ایچ ای ڈیلی ویجروں کا احتجاجی دھرنا جاری تھا۔
ادھرسپریم کورٹ نے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو مستقل کرنے کی ہدایت دینے والے ۲۰۰۷ کے ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہنے پر جموں و کشمیر انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ معاملہ سرکاری حکام کی ’درسی مثال‘ ہے جیسے وہ قانون سے بالاتر ہیں۔
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ کی بنچ نے سرکاری افسروں کی غیر فعالیت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے رویے کو’بادی النظر میں توہین آمیز‘ قرار دیا۔
بار اینڈ بنچ نے عدالت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا’’درخواست گزار مرکز کے زیر انتظام علاقے کے افسروں کی غیر فعالیت، جنہیں ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرنے میں تقریبا ً۱۶ سال لگے، حیران کن ہے‘‘۔
یہ معاملہ۲۰۰۶ کا ہے، جب یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے ایک گروپ نے۱۹۹۴کے ایس آر او۶۴کے تحت مستقل ملازمت اور مناسب اجرت کی مانگ کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے۲۰۰۷میں ان کے حق میں فیصلہ دیا۔ تاہم انتظامیہ نے اس پر عمل کرنے کے بجائے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
اپیل کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ مزدوروں کو بار بار مبہم احکامات کے ذریعے ہراساں کیا گیا جس میں ۲۰۰۷ کے فیصلے کی روح کو نظر انداز کیا گیا۔
عدالت نے ذمہ دار افسران کے خلاف جرمانے عائد کرنے اور انضباطی کارروائی کی سفارش کرنے پر بھی غور کیا لیکن اس سے گریز کیا کیونکہ توہین عدالت کی کارروائی پہلے ہی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
بار اینڈ بنچ نے عدالت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا’’ہم فاضل سنگل جج سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہفتہ وار بنیاد پر توہین عدالت کی کارروائی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کی عظمت اور تقدس کو اچھی طرح سے برقرار رکھا جائے‘‘۔
مرکز کے زیر انتظام علاقے کی نمائندگی ایڈوکیٹ رشاب اگروال نے کی جبکہ ملازمین کی طرف سے وکیل شعیب قریشی پیش ہوئے۔