جموں//
جموں کشمیر کے راجوری ضلع کے اس دور افتادہ پہاڑی گاؤں کے لوگ گزشتہ ۴۵ دنوں میں ایک کے بعد ایک پراسرار اموات کے سلسلے سے دنگ رہ گئے ہیں۔
ایک مقامی شخص نے بتایا کہ موت کا ان کا خوف کبھی اتنا زیادہ نہیں تھا‘یہاں تک کہ کووڈ وبائی مرض کے دوران بھی نہیں، یا جب عسکریت پسندی اپنے عروج پر تھی۔
حکام نے ان اموات کے پیچھے کسی متعدی بیماری کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔
سی ایس آئی آر،آئی آئی ٹی آر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں نیوروٹوکسن کی موجودگی کا انکشاف ہونے کے بعد پولیس کی نو تشکیل شدہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی تفتیش کے حصے کے طور پر۶۰سے زیادہ لوگوں کو پوچھ تاچھ کیلئے حراست میں لیا ہے۔
جمعہ کو جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے کوٹرانکا سب ڈویڑن کے بدھل گاؤں کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے یہاں ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کی اور محکمہ صحت اور پولیس کو تحقیقات میں تیزی لانے کی ہدایت دی۔
راجوری ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً۵۵ کلومیٹر دور واقع گاؤں کے لوگ خوف میں مبتلا ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ معمہ پہلے ہی حل ہوجائے۔
لوگوں نے بخار، درد، متلی اور بے ہوش ہونے کی شکایت کی اور اسپتالوں میں داخل ہونے کے چند دنوں کے اندر ہی دم توڑ دیا۔ اکیلی ایک لڑکی اس رجحان کا مقابلہ کرنے اور کئی دنوں تک اس حالت کا مقابلہ کرنے کے قابل تھی۔ حالانکہ ان کی حالت اب بھی نازک ہے۔
ایک ڈاکٹر کے مطابق مریضوں کے ایم آر آئی اسکین سے دماغ میں ایڈیما کا انکشاف ہوا، یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں دماغ کے ٹشوز میں سیال جمع ہوتا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما اور مقامی رکن قانون ساز اسمبلی (ایم ایل اے) جاوید اقبال چودھری نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر کسی کو کوئی سراغ ہے تو براہ مہربانی آگے آئیں اور جاری تحقیقات میں مدد کریں۔’’یہ ہم سب کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے …‘‘
گاؤں میں محمد اسلم کی زرعی زمین پر ایک نیا قبرستان تعمیر کیا گیا ہے، جنہوں نے۱۲ سے ۱۷جنوری کے درمیان پانچ بچوں اور ان کے ماموں اور خالہ کو گود لیا تھا۔
اسلم کے بہنوئی فضل حسین اور ان کے چار بچوں کی۷دسمبر کو گاؤں میں مشتبہ حالات میں سب سے پہلے موت ہوئی تھی۔ ابتدائی طور پر خیال کیا جا رہا تھا کہ ان کی موت فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے ہوئی تھی کیونکہ ان کے خاندان نے اس سے قبل ایک شادی میں شرکت کی تھی۔
اسلم کے کزن محمد رفیق کی حاملہ بیوی اور اس کے تین بچے۱۲ دسمبر کو فوت ہوگئے تھے۔
چودھری نے کہا کہ حکومت نے انتہائی حساس انداز میں صورتحال کا جواب دیا اور کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ جموں و کشمیر کے اندر اور باہر سے صحت کی ٹیموں کو متحرک کیا گیا اور کم سے کم وقت میں تمام دیہاتیوں کی جانچ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پہلے دن سے ہی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
حکمران جماعت کے ممبر اسمبلی نے مزید کہا’’وزیر اعلیٰ کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ میں بتایا گیا کہ ایس آئی ٹی نے پوچھ تاچھ کے لیے کل۶۸ لوگوں کو حراست میں لیا ہے‘‘۔
غم زدہ اسلم نے اپنے خاندان کے خلاف کسی ’سازش‘ سے انکار نہیں کیا۔’’سینکڑوں لوگوں نے دعوت کھائی لیکن پہلے صرف حسین اور ان کے بچے ہی فوت ہوئے۔ کچھ دن بعد میرے کزن کی بیوی اور بچوں کا انتقال ہو گیا اور پھر موت میرے دروازے تک پہنچ گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف ہماری فیملی اس طرح مر گئی‘‘؟ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے اہل خانہ نے حسین کے گھر پر کھانا کھایا تھا جہاں موت کے ۴۰ ویں دن کے موقع پر ایک خصوصی دعائیہ اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ گاؤں والوں میں خوف اس حد تک پھیل گیا ہے کہ جب وہ غم زدہ تھے تو بہت سے لوگ ان سے ملنے سے گریز کرتے تھے۔
ایک مقامی سماجی کارکن ظہیر احمد گورسی نے کہا کہ گاؤں والے ابھی تک نامعلوم اموات سے نہیں نمٹ سکے ہیں۔’’ایک نیا قبرستان تیار کیا جانا چاہیے… یہ پورے گاؤں کے لیے امتحان کا وقت ہے‘‘۔
اسلم کے ایک رشتہ دار زاہد شاہ نے کہا کہ انہیں انتظامیہ اور پولیس پر مکمل اعتماد ہے۔انہوں نے کہا کہ اس قسم کا خوف اس وقت بھی نہیں تھا جب عسکریت پسندی اپنے عروج پر تھی یا کووڈ۱۹ وبائی مرض کے دوران تھا۔ ایک اور رشتہ دار ناظم دین نے کہا کہ لوگ مرنے والوں کی قبر کھودنے کے لیے بھی آگے نہیں آرہے ہیں۔
اس سے قبل ایک سرکاری ترجمان نے کہا تھا کہ تحقیقات اور نمونوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعات بیکٹیریا یا وائرل اصل کی متعدی بیماری کی وجہ سے نہیں تھے اور صحت عامہ کا کوئی زاویہ نہیں ہے۔
ترجمان نے کہا’’متاثرین اور گاؤں والوں سے لیے گئے سبھی نمونے کسی بھی وائرل یا بیکٹیریولوجیکل ایٹیولوجی کے لئے منفی پائے گئے ہیں۔ یہ ٹیسٹ ملک کی چند معروف لیبارٹریز میں مختلف نمونوں پر کیے گئے تھے‘‘۔
سی ایس آئی آر،آئی آئی ٹی آر کی جانب سے کیے گئے زہریلے تجزیے میں متعدد حیاتیاتی نمونوں میں زہریلے مادوں کا پتہ چلا ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ انتظامیہ صورتحال کو اولین ترجیح کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔’’ہمارے لوگوں کی صحت اور حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔ حکومت اس بحران کو حل کرنے اور متاثرہ خاندانوں کیلئے انصاف کو یقینی بنانے کیلئے پوری طرح پرعزم ہے۔ ‘‘(ایجنسیاں)