سرینگر21 دسمبر
پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے ہفتہ کے روز کہا کہ کشمیری شال کے لئے جی ایس ٹی میں مجوزہ اضافے سے یہ فن ختم ہوجائے گا ۔ انہوں نے جموں کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی اپیل کی۔
محبوبہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ مرکز جموں کشمیر کے لوگوں کو صرف سیاحت پر منحصر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہفتہ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پی ڈی پی کی صدر نے کہا کہ کشمیری شال ہمارے لئے نہ صرف ذریعہ معاش ہے بلکہ جموں و کشمیر کی شناخت ہے۔ ”یہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ (سابقہ) نیشنل کانفرنس حکومت نے شہتوش پر پابندی لگا دی، جو ہمارا ورثہ تھا۔ اس سے معاشی نقصان بھی ہوا“۔
محبوبہ نے کہا کہ آج جب آپ کشمیری شال پر جی ایس ٹی بڑھا کر 28 فیصد کر دیں گے تو ہمارا فن خود بخود ختم ہو جائے گا۔
سابق ریاست کے سابق وزیر اعلی نے الزام لگایا کہ باغبانی کی زمین پر ترقیاتی کام کرکے اور دستکاری کے شعبے پر جی ایس ٹی لگا کر جموں و کشمیر کو تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
محبوبہ نے کہا کہ ان شعبوںنے جموں و کشمیر کو اس کے مشکل وقت میں زندہ رکھا۔ ”میں عمر عبداللہ سے درخواست کرتی ہوں کہ یہ ہمارے اثاثے ہیں، آپ کے پاس 50 ایم ایل اے ہیں، تین ایم پی ہیں، خدا کے واسطے ہمیں بتائیں کہ آپ ہمارے اثاثوں کو بچانے کے لئے کیا کر رہے ہیں۔ جی ایس ٹی کو بڑھا کر 28 فیصد کرنے کے معاملے پر آپ کیا کر رہے ہیں“۔
پی ڈی پی سربراہ نے الزام عائد کیا کہ یہ اقدامات جموں و کشمیر کو صرف سیاحت پر منحصر کرنے کی مرکز کی کوشش ہے۔
محبوبہ کاکہنا تھا”اگر ہماری باغبانی اور دستکاری ختم ہو جاتی ہے، تو ہم صرف سیاحت پر منحصر رہیں گے۔ شاید مرکزی حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کو صرف سیاحت پر منحصر بنانے کے لئے باغبانی اور دستکاری کے شعبوں کو ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ جب وہ چاہیں سیاحوں کو بھیج سکیں“۔
سابق وزیر اعلیٰ نے یہ بھی دعوی کیا کہ بڑے ترقیاتی منصوبے زرعی اور باغبانی کی زمین پر تباہی مچا رہے ہیں۔
پی ڈی پی سربراہ نے کہا”ریلوے لائنیں، رنگ روڈ، بارہمولہ راجوری شاہراہ ، باغات پر حملہ کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے نوجوان اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ اس کا جموں و کشمیر کی معیشت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے اور ہماری حالت ان ریاستوں سے بھی بدتر ہو سکتی ہے جہاں سے مزدور یہاں آتے ہیں۔ لہٰذا عمر عبداللہ کو اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ بڑے بڑے پروجیکٹوں کے لیے ہماری زمینیں چھینی جا رہی ہیں“۔
پی ڈی پی صدر نے وزیر اعلی ٰ پر زور دیا کہ وہ وادی میں تعمیر کی جانے والی 30 سیٹلائٹ ٹاو¿ن شپس میں آباد ہونے والے لوگوں کے بارے میں وضاحت فراہم کریں۔انہوں نے کہا” 30 سیٹلائٹ ٹاو¿ن شپ بنائے جا رہے ہیں، ان کے لیے 1.20 لاکھ کنال زمین کی ضرورت ہے۔ انہیں (عمرعبداللہ کو) ہمیں بتانا چاہیے کہ یہ کس کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔ وہاں کس کو بسایا جا رہا ہے؟ اس بارے میں خدشات ہیں کہ کس کو بسایا جا رہا ہے کیونکہ دنیا بھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں جیسے غزہ اور شام میں جہاں لوگوں کی زمین چھین ی گئی“۔
محبوبہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام پہلے ہی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ ان بستیوں کی تعمیر کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ان کے لیے ہماری زرعی زمین لی جا رہی ہے۔
پی ڈی پی سربراہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جموں کشمیر میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ راشن کارڈ منسوخ کردیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شدید سردی کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور بجلی کی فراہمی میں مسائل نے ان کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعلی عبداللہ ان مسائل پر توجہ دیں گے اور عوام کے مسائل کو حل کریں گے۔ (ایجنسیاں)