تحریر:ہارون رشید شاہ
ہمسایہ ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے ساتھی ہوتے ہیں… ایک دوسرے کا سہارا ہو تے ہیں ۔سکھ اور دکھ ‘ دونوں میں سب سے پہلے اگر کوئی شامل ہوتا ہے‘ شریک ہو تا ہے تو…تو وہ ہمسایہ ہے ‘ وہ ہمسایہ ہی ہو سکتا ہے… کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے… بالکل بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان بھی ایک دوسرے کے ہمسایہ ہے …جن کے بارے میں اٹل جی کہا کرتے تھے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں ‘ لیکن ہمسایہ نہیں … بالکل بھی نہیں ۔او ر یقین کیجئے کہ ہندوستان اور پاکستان بھی بدلے نہیں جا سکتے ہیں… یہ ہسایہ ہیں ‘ ایک دوسرے کے ہمسایہ ہیں اور … اور یہی حقیقت ہے … آپ چاہے اس حقیقت کو پسند کریں یا نہیں لیکن صاحب حقیقت یہی ہے ۔ ہمسایہ ہونے کے ناطے صاحب امید تو یہ تھی کہ پاکستان ہندوستان کے دکھ سکھ میں شریک ہو تا … لیکن صاحب ایسی ہماری تقدیر کہاں… ایک بھی موقع ‘ جی ہاں ایک بھی موقع وہ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے… ہندوستان کی ٹانگ کھینچنے میں ایک موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے … ابھی یہاں کچھ ہوا نہ نہیں ہوتا ہے اور… اور پاکستان کی وزارت خارجہ لمبا چوڑا بیان جاری کرتی ہے… اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا ہے… اور بالکل بھی نہیں کیا جاتا ہے… بلکہ اپنے ہمسایہ ملک کے سفیر کو طلب کیا جاتا ہے اور… اور ’احتجاج‘ درج کیا جاتا ہے… اور احتجاج بھی کس پر ؟اگر بھارت دیش میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر … واہ کیا بات !صاحب پرانی کہاوت ہے کہ جس کا گھر شیشے کا بنا ہوا ہو اسے ہاتھ میں پتھر نہیں اٹھانا چاہئے اور… اور بالکل بھی نہیں چاہئے … پاکستان میں اقلیتوں کا کیا حال ہے ‘وہاں اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے … کس طرح انہیں تنگ طلب کیا جاتا ہے‘ ان کے حقوق کو پامال کیاجاتا ہے … وہ کسی سے بھی پوشید ہ نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے … ہو نا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ پاکستان اپنے گھر کی حالت میں سدھار لاتا … اسے ٹھیک کرتا ‘ بہتر کرتا … لیکن صاحب نہیں ‘ اس سب میں پاکستان یقین نہیں رکھتا ہے اور… اور بالکل بھی نہیں رکھتا ہے ۔وہ صرف ایک بات جاننا ہے‘ اسی بات پر یقین بھی رکھتا ہے …دوسروں پر انگلی اٹھانا… حتیٰ کہ اپنے ہمسایہ پر بھی ۔ کیسا ہمسایہ ہے پاکستان ۔ ہے نا؟