جموں//
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنما اور جنرل سکریٹری (تنظیم) اشوک کول نے چہارشنبہ کے روز کہا کہ ان کی پارٹی جموں و کشمیر کی نئی حکومت میں ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔
کول نے کہا’’ہم عوام کے مینڈیٹ کو قبول کرتے ہیں۔ ہم ایک مضبوط اپوزیشن بنیں گے اور لوگوں کیلئے کام کریں گے، خاص طور پر جموں ڈویڑن میں جنہوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا‘‘۔
عمر عبداللہ کے اس بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ’’آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے والوں سے اس کی بحالی کی توقع رکھنا ’احمقانہ‘ ہے، کول نے جواب دیا’’پھر وہ کیا چاہتے ہیں؟ انہیں وہی کرنے دیں جو ان کے خیال میں صحیح ہے‘‘۔
کول نے کہا کہ بی جے پی کی ترجیح جموں کے خدشات اور جموں و کشمیر کی مجموعی ترقی ہے۔
نئی حکومت کی تشکیل کے بعد آرٹیکل ۳۷۰کی بحالی کیلئے ایک قرارداد پیش کرنے کے عمر عبداللہ کے منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے کول نے کہا’’وہ اپنے ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں، اور ہم اپنے ایجنڈے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ جموں میں بی جے پی کو مضبوط مینڈیٹ حاصل ہے اور ہم اپوزیشن کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کریں گے‘‘۔
جب ان سے کشمیر میں بی جے پی کی شکست کے بارے میں پوچھا گیا، خاص طور پر گریز میں، جہاں پارٹی کو بہت امیدیں تھیں، کول مثبت رہے’’ جیتنا اور ہارنا زندگی کا حصہ ہے۔ ہم جیتنے والوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نئی حکومت کو جموں ڈویڑن کو بھی ترجیح دینی چاہئے کیونکہ اس کی محدود نمائندگی ہوگی کیونکہ زیادہ تر نشستیں بی جے پی کے پاس گئیں ، جو اپوزیشن میں بیٹھے گی ، کول نے جواب دیا کہ حکومت کو پورے جموں و کشمیر پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
کول نے کہا’’ہم یہاں جموں ڈویڑن کے لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کیلئے ہیں‘کیونکہ انہوں نے ہمیں اپنا مینڈیٹ دیا ہے، لیکن حکومت جموں و کشمیر کے تمام شہریوں کی خدمت کے لئے ذمہ دار ہے۔‘‘
جموں ڈویڑن کی۴۳ سیٹوں میں سے بی جے پی ۲۹ سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ جبکہ نیشنل کانفرنس کو سات سیٹیں ملیں۔ تیسرا نمبر آزاد امیدواروں کے حصے میں آیا جنہوں نے پانچ نشستیں حاصل کیں جن میں سے اب چار جیتے ہوئے امیدوار نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔
جموں خطہ میں کانگریس کی کارکردگی نہ کے برابر رہی۔ کانگریس کے دو کارگزار صدر تارچند اور رمن بھلا، سابق وزیر وقار رسول وانی کو بھی ہار کا سامنا کرنا پڑا۔