جموں//
مرکزی وزیر ‘جی کشن ریڈی نے جمعہ کے روز جموں و کشمیر میں آئین کی دفعہ۳۷۰ کے نفاذ کیلئے نیشنل کانفرنس کو مورد الزام ٹھہرایا اور الزام عائد کیا کہ علاقائی پارٹی کی وجہ سے اس خطے کو ’متنازعہ‘ قرار دیا گیا۔
ریڈی نے نیشنل کانفرنس پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور سرحد پار دہشت گردی میں اضافے میں اہم کردار ادا کرنے کا بھی الزام لگایا جس کا ہندوستان اس وقت مقابلہ کر رہا ہے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کی وجہ سے جموں کشمیر کو متنازعہ قرار دیا گیا۔
ریڈی نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں جاری اسمبلی انتخابات میں ریاسی ضلع سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امیدواروں کیلئے انتخابی مہم کے دوران نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ نیشنل کانفرنس ہی تھی جس نے دفعہ۳۷۰ کو وجود میں لایا اور اسے یہاں نافذ کیا۔
آرٹیکل ۳۷۰ کو جموں و کشمیر میں مختلف مسائل کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے مرکزی وزیر نے کہا’’آرٹیکل ۳۷۰نے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا اور خطے میں موروثی حکمرانی کو برقرار رکھا‘‘۔
۵؍اگست ۲۰۱۹ کو بی جے پی کی زیرقیادت مرکز نے آرٹیکل ۳۷۰کی دفعات کو منسوخ کردیا تھا ، جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی حقوق دیئے تھے اور سابق ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔
نیشنل کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ریڈی نے کہا کہ اگر نیشنل کانفرنس جیسی پارٹی اقتدار میں نہ ہوتی تو جموں و کشمیر ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے برابر ترقی کرتا۔انہوں نے نیشنل کانفرنس پر جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا بھی الزام لگایا۔
مرکزی وزیر نے دعویٰ کیا کہ دفعہ۳۷۰کی منسوخی کے بعد سے جموں کشمیر میں امن بحال ہوا ہے اور اہم ترقیاتی اقدامات جاری ہیں۔
ریڈی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رکھنے کیلئے موجودہ انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ دیں۔
مرکزی وزیرنے کہا کہ دفعہ۳۷۰ کی منسوخی سے پہلے خطے میں دہشت گردانہ سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ انہوں نے مزید کہا’’لیکن آج، ان میں سے زیادہ تر سرگرمیوں کو ختم کر دیا گیا ہے‘‘۔
آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد مرکز کے زیر انتظام علاقے میں پہلے اسمبلی انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ریڈی نے کہا’’یہ ایک اہم انتخاب ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگوں پر ایک اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد صحیح فیصلہ کریں گے۔ جموں و کشمیر میں کوئی نہیں چاہتا کہ دفعہ۳۷۰واپس آئے۔‘‘