سرینگر/۶۱ستمبر
جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے والے 908 امیدواروں میں سے 40 فیصد سے زیادہ آزاد امیدوار ہیں، جس سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد کو بی جے پی نے ووٹ تقسیم کرنے کے لئے حمایت کی ہے۔
2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اس کی دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تنظیم نو کے بعد جموں و کشمیر میں یہ پہلے اسمبلی انتخابات ہیں۔
2022 میں حد بندی کے عمل کے بعد اسمبلی نشستوں کی تعداد بھی پہلے کے 87 سے بڑھ کر 90 ہوگئی ہے …. وادی کشمیر میں 47 اور جموں میں 43۔
آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد میدان میں آنے کی وجہ سے نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے الزام لگایا ہے کہ انہیں’دہلی‘ کی حمایت حاصل ہے۔
تین مرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کےلئے کل 365 نے آزاد امیدواروں کے طور پر اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں۔
جموں و کشمیر میں انتخابات لڑنے والے آزاد امیدواروں کی یہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ سال 2008 کے اسمبلی انتخابات میں، جو امرناتھ اراضی تنازعہ کے فورا بعد ہوئے تھے، جس میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے، 468 امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا تھا۔
اس بار امیدواروں کی کل تعداد بھی اب تک کی دوسری سب سے زیادہ ہے۔ 2008 کے انتخابات میں 1353 امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔
سال 2014 میں پچھلی بار سابق ریاست میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے جس میں 831 امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ ان میں سے 274 نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا تھا۔
اس بار جموں ڈویڑن کی 43 سیٹوں کے لئے 367 امیدوار میدان میں ہیں، جہاں بی جے پی کی مضبوط بنیاد ہے، جبکہ وادی کی 47 سیٹوں کے لئے 541 امیدوار میدان میں ہیں۔
کشمیر کے 47 اسمبلی حلقوں میں سے ہر ایک کے لئے اوسطا ًپانچ آزاد امیدوار ہیں۔ جموں ڈویڑن میں یہ تعداد گھٹ کر 2.93 فی حلقہ رہ گئی ہے۔
سوپور اسمبلی حلقہ، جو کبھی عسکریت پسندی کا گڑھ تھا اور کشمیر میں انتخابی بائیکاٹ مہم کا مرکز تھا، میں آزاد اور کل امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔22 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے 14 آزاد امیدوار ہیں۔سوپور سے آزاد امیدواروں میں پارلیمنٹ حملے کے مجرم افضل گورو کے بھائی اعجاز گرو بھی شامل ہیں۔
بانڈی پورہ ضلع کے سوناواری حلقہ میں 20 امیدوار میدان میں ہیں، جن میں 11 آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔ اس علاقے میں کالعدم جماعت اسلامی کی مضبوط موجودگی ہے۔
اس بھرمار کے درمیان چار حلقے ایسے ہیں جہاں آزاد امیدواروں کی تعداد صفر ہے۔ ان میں بدھل، کنگن، رمنگر اور سری گوفوارہ،بجبہاڑہ شامل ہیں۔
ضلع اننت ناگ کی سری گفوارہ بجبہاڑہ سیٹ پر تین امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے ایک پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی ہیں۔
ڈوڈہ ویسٹ، نوشہرہ اور رام گڑھ میں ایک ایک آزاد امیدوار ہے۔ بی جے پی کے جموں و کشمیر کے صدر رویندر راینا نوشہرہ سے امیدوار ہیں جو انتخابات جیتنے کی صورت میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کےلئے سب سے آگے ہیں۔
انتخابی میدان میں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کے بارے میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہیں دہلی نے ووٹ تقسیم کرنے کے لئے میدان میں اتارا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ساتھ رہنا ہوگا تاکہ دہلی کی جانب سے بڑی تعداد میں آزاد امیدوار ووٹوں کو تقسیم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
گاندربل اور بڈگام حلقوں سے الیکشن لڑ رہے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ دہلی ان کی آواز دبانے کے لئے ان کے خلاف بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کو میدان میں اتار رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ دہلی جموں و کشمیر میں کسی بھی سیاست داں کو خاموش کرانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے، خاص طور پر کشمیر میں، جتنا وہ عمر عبداللہ کے ساتھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گاندربل حلقہ میں15 امیدوار میدان میں ہیں۔ ان میں سے سات امیدوار جن میں جیل میں بند علیحدگی پسند رہنما سرجان احمد واگے عرف برکاتی بھی شامل ہیں، جن کا تعلق جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع سے ہے، آزاد امیدوار ہیں۔
کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے بھی آزاد امیدواروں کی غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں میدان میں آنے کا معاملہ اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس مل کر الیکشن لڑ رہے ہیں جس سے بی جے پی پریشان ہے۔
کھڑگے نے گزشتہ ہفتے کشمیر کے اپنے دورے کے دوران پوچھا ” اب وہ اتحاد توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس مل کر الیکشن لڑ رہے ہیں جس سے بی جے پی پریشان ہے۔ اب وہ اتحاد توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہاں تک کہ وہ ہمارے امیدواروں کو شکست دینے کی کوشش میں نجی کھلاڑیوں کو بھی میدان میں اتار رہے ہیں اور بالواسطہ طور پر آزاد امیدواروں کے طور پر ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ بصورت دیگر، وہ (آزاد امیدوار) پیسے کہاں سے لاتے ہیں؟ ان کے پیچھے کون ہے؟“
جموں و کشمیر کی 90 رکنی اسمبلی کے لئے تین مرحلوں میں انتخابات 18 ستمبر، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو ہوں گے۔ نتائج کا اعلان 8 اکتوبر کو کیا جائے گا۔ (ایجنسیاں)