سرینگر///
جموں کشمیر پولیس نے ایئر فورس اسٹیشن سرینگر میں تعینات ایک۲۶سالہ خاتون فلائنگ افسر پر ایک سینئر افسر کی طرف سے مبینہ طور پر جنسی زیادتی اور ذہنی طور پر ہراساں کیے جانے کے بعد فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کیا ہے ۔
یہ ایف آئی آر اتوار کے روز پولیس اسٹیشن بڈگام میں تعذیرات ہند کی دفعہ۳۷۶(۲)کے تحت درج کیا گیا تھا۔
مذکورہ خاتون افسر نے اپنی شکایت میں کہا’’یہ اذیت۳۱دسمبر۲۰۲۳کی رات سرینگر کے ایئر فورس اسٹیشن میں نئے سال کی پارٹی کے دوران کی ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’پارٹی کے بعد ونگ کمانڈر نے مجھ سے کہا کہ آپ کو تحفہ مل گیا، میں نے کہا مجھے کوئی تحفہ نہیں ملا جس پر انہوں نے مجھ سے اپنے کمرے میں آنے کو کہا جہاں ان کے مطابق تمام تحفے رکھے گئے ہیں اور میں ونگ کمانڈر کے ساتھ ان کے کمرے میں گئی‘‘۔
خاتون افسر نے ونگ کمانڈر پر کمرے میں ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کا الزام لگایا۔انہوں نے شکایت میں کہا’’اس کی پیش قدمی کے خلاف مزاحمت کے باجود مجھے ایک تکلیف دہ صورتحال میں دھکیل دیا گیا‘‘۔ان کا کہنا ہے’’میں نے دو خاتون افسروں کے سامنے اس واقعے کا انکشاف کیا جنہوں نے مجھے اس کے خلاف شکایت درج کرنے کی رہنمائی کی‘‘۔
موصوفہ کا شکایت میں کہنا ہے’’فورسزکے ماحول میں نئی ہونے کی وجہ سے میں ذہنی صدمے میں مبتلا ہوئی میں اس حد تک ٹوٹ گئی تھی کہ مجھ میں رپورٹ کرنے کی ہمت نہیں تھی‘‘۔انہوں نے کہا’’میں غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اپنے ذہنی کرب کو بیان کرنے سے قاصر ہوں جس نے فوج میں شمولیت اختیار کی ہو اور جس کے ساتھ ایسا گھناؤنا سلوک کیا گیا ہو‘‘۔
ان کا شکایت میں کہنا ہے’’چونکہ اس واقعے اور ڈراؤنے خوابوں نے مجھے اس مخمصے میں ڈال دیا کہ آیا بحث کروں یا خاموش رہوں، آخر کار میں نے لڑنے کا فیصلہ کیا‘‘۔خاتون افسرکا شکایت میں کہنا ہے’’مجھے ایئر افسر کمانڈنگ (اے او سی) کوبھی شکایت کرنے میں پریشانی ہوئی ایک کرنل کو واقعے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا گیا اور ملزم کو میرے ساتھ بٹھا دیا گیا‘‘۔انہوں نے شکایت میں الزام لگایا کہ غلط طریقے سے اندرونی تحقیقات کی گئیں اور میرے خدشات کو مسترد کر دیا گیا۔
ان کا کہنا ہے’’میں نے انٹرنل کمیٹی (آئی سی) کے سامنے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک گواہ کو طلب کرنے کی استدعا کی تھی جس کو بیان دینے سے پہلے ہی کیمپ ایریا سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا تھا، لیکن اندرونی کمیٹی نے ایسا نہیں کیا‘‘۔انہوں نے کہا’’تمام حقائق فراہم کرنے اور سکھائے گئے گواہوں کے جھوٹ اور تضادات سامنے لانے کے باوجود آئی سی نے سب کچھ نظر انداز کیا‘‘۔
خاتون افسر نے شکایت میں کہا’’میں نے سٹیشن اتھارٹیز کے غلط کاموں کی غفلت کو سامنے لایا تھا کہ کس طرح ایک گواہ کو اس کا بیان دینے سے پہلے کیمپ ایریا سے باہر جانے کیلئے مجبور کیا گیا لیکن جب آئی سی نے اپنی سفارشات پیش کیں تو ان میں سے کسی بھی نکتے پر کارروائی کی سفارش نہیں کی گئی‘‘۔انہوں نے کہا’’ہر کوئی جنسی مجرم کی مدد کر رہا تھا‘‘۔
ان کا کہنا ہے’’یہاں تک کہ میں نے عبوری ریلیف کی درخواست کی تھی اور متعدد بار چھٹی کی درخواست کی تھی لیکن ہر بار چھٹی کی درخواست کو رد کر دیا گیا‘‘۔انہوں نے الزام لگایا’’میں نے پوچھا کہ اس جگہ سے مجھے یا ملزم کو کہیں پوسٹ کیا جائے لیکن آج تک دونوں ایک ہی جگہ پر تعینات ہیں میں ان لوگوں کے ساتھ میل جول کرنے اور اپنے بدسلوکی کرنے والے کے ساتھ تقریبات میں شرکت کرنے پر مجبور ہوں‘‘۔
مذکورہ افسر نے ایک واقعے کا حوالہ دیا جس میں ایک شخص جس کے ساتھ اس نے بات کی تھی کو حراست میں لیا گیا اور سیکورٹی سیکشن نے اس کی پوچھ تاچھ کی اور اس واقعے میں کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا۔انہوں نے شکایت میں کہا’’اس مسلسل ہراسانی سے میرے دماغی صحت پر شدید اثرات پڑ گئے ہیں، میں مسلسل خوف میں جی رہی ہوں، میں چوبیس گھنٹے نگرانی کے تحت ہوں اور میری سماجی زندگی مکمل طور پر درہم و برہم ہوچکی ہے ‘‘۔
ان کا شکایت میں کہنا ہے’’ہراسانی نے مجھے خودکشی کے خیالات کی طرف دھکیل دیا ہے اور میں اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کر رہی ہوں میں اپنی روزمرہ کی زندگی کو جاری رکھنے سے قاصر ہوں اور حکام کی طرف سے میرے سماجی رابطوں کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے ‘‘۔انہوں نے کہا’’میں یہ تکلیف کافی عرصے سے برداشت کر رہی ہوں اور اب بریکنگ پوائنٹ پر ہوں میں اب اس ذہنی کوفت کو مزید برداشت کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔
خاتون افسر کا الزام ہے کہ پانچ دیگر افسر بھی تحقیقات میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔شکایت موصول ہونے کے بعد جموں وکشمیر پولیس نے اس سلسلے میں ایک کیس درج کیا ہے اور تحقیقات کے لئے کیس ایک انسپکٹر کے سپرد کیا گیا ہے ۔