نئی دہلی//
ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک نے پیر کو وزیر اعظم نریندر مودی سے درخواست کی کہ لداخ کو آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کیا جائے، جس سے مقامی لوگوں کو ان کی زمین اور ثقافتی شناخت کی حفاظت کے لیے قانون سازی کا اختیار مل جائے۔
یکم ستمبر کو وانگچک اور تقریبا ً۷۵ رضاکاروں نے لیہہ سے نئی دہلی تک پیدل مارچ شروع کیا تاکہ مرکز سے لداخ کی قیادت کے ساتھ ان کے مطالبات کے بارے میں بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی درخواست کی جاسکے۔
ایک ورچوئل پریس کانفرنس میں وانگ چک نے کہا کہ انہیں جولائی میں کرگل وجے دیوس کی۲۵ ویں سالگرہ کے موقع پر دراس کے دورے کے دوران وزیر اعظم کو پیش کردہ مطالبات کی یادداشت کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
وانگچک نے یہ بھی کہا کہ لداخ میں پانچ اضافی اضلاع کی تشکیل کو ان کے احتجاج سے بالواسطہ طور پر جوڑا جاسکتا ہے۔
ماحولیاتی کارکن نے کہا’’تاہم، ہمیں اب بھی نہیں معلوم کہ آیا ان اضلاع کو فیصلہ سازی کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بدقسمتی ہوگی‘‘۔
وانگچک نے کہا کہ لداخ ماحولیاتی طور پر نازک خطہ ہے جس کو صنعتی اور آب و ہوا سے متعلق چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ’’میں وزیر اعظم پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنے لوگوں کی خودمختاری کے تحفظ کیلئے اسے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کریں‘‘۔انہوں نے کہا کہ مارچ کے ذریعے ان کا مقصد عالمی رہنماؤں اور عالمی برادری کی توجہ خطے میں موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کی طرف مبذول کرانا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وانگچک نے کہا کہ لیہہ اور کرگل کی لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسلوں (ایل اے ایچ ڈی سی) کو صرف ترقیاتی فنڈز خرچ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لداخ کے عوام بھی قانون سازی کے اختیارات چاہتے ہیں۔
وانگچک نے تسلیم کیا کہ ایک مارچ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مرکز لداخی عوام کے مطالبات پر بات چیت دوبارہ شروع کرے۔
ماحولیاتی کارکن نے کہا کہ ان کا سیاست میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس مارچ کا کئی ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ درحقیقت ہم ہریانہ سے بچنے پر غور کر رہے ہیں جہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔
وانگچک نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے لداخ کو آدیواسی علاقے کا درجہ اور مکمل ریاست کا درجہ دینے کا اپنا وعدہ ’صنعت کاروں کے دباؤ میں واپس لے لیا ہے، جو ماحولیاتی طور پر نازک علاقے کے وسائل کا استحصال کرنا چاہتے ہیں‘۔
اس سے قبل معروف ماحولیاتی کارکن نے پی ٹی آئی کو بتایا تھا کہ لداخ میں ایل اے ایچ ڈی سی کی رضامندی کے بغیر شمسی توانائی کے منصوبوں کیلئے زمین الاٹ کی جارہی ہے۔
سال میں تقریباً۳۲۰ واضح دھوپ والے دن اور۲۰۲۲ کلو واٹ / میٹر مربع کلومیٹر سالانہ کی اوسط روزانہ عالمی شمسی تابکاری کے ساتھ ، لداخ ملک میں شمسی توانائی پیدا کرنے کا ہاٹ اسپاٹ ہے۔ سرد صحرا شمسی توانائی سے ۳۵گیگا واٹ اور ہوا سے۱۰۰ گیگا واٹ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حکومت پہلے ہی لداخ میں۵ء۷ گیگاواٹ کے شمسی پارک کے ساتھ ۱۳ گیگاواٹ قابل تجدید توانائی کے منصوبے کو منظوری دے چکی ہے۔
وانگچک نے مارچ میں صرف نمک اور پانی پر گزارہ کرتے ہوئے ۲۱ روزہ بھوک ہڑتال کی تھی، تاکہ لداخ کو ریاست کا درجہ دینے اور اسے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جاسکے تاکہ ماحولیاتی طور پر کمزور خطے کو’لالچی‘ صنعتوں سے بچانے میں مدد مل سکے۔ (ایجنسیاں)