سرینگر/۲۷اگست
کالعدم جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے چار سابق ارکان نے آزاد امیدواروں کے طور پر مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی انتخابات لڑنے کےلئے منگل کو کاغذات نامزدگی داخل کیے۔
مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے اس پر لگائی گئی پابندی کی وجہ سے جماعت اسلامی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی، لیکن اس نے پابندی ہٹائے جانے کی صورت میں لوک سبھا انتخابات کے دوران انتخابات میں حصہ لینے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔
جماعت اسلامی نے1987کے بعد کسی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور 1993 سے 2003 تک علیحدگی پسند اتحاد حریت کانفرنس کا حصہ رہی ہے جس نے انتخابی بائیکاٹ کی وکالت کی تھی۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر طلعت مجید نے پلوامہ حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
مجید نے کہا کہ 2008 کے بعد سے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے پر غور کرنے کے بعد، انہوں نے ماضی کی کچھ ’سختیوں‘ کو چھوڑنے کی ضرورت محسوس کی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ جغرافیائی و سیاسی منظر نامے کے پیش نظر میں نے محسوس کیا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لیں۔ ”میں 2014 سے بہت کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں اور میں آج بھی اس ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہوں“۔
مجید نے کہا کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں جماعت اور حریت کانفرنس جیسی تنظیموں کا کردار ہے۔انہوں نے کہا ” جب ہم کشمیر کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم عالمی سطح پر صورتحال کو نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔ کشمیری ہونے کے ناطے ہمیں حال میں رہنا چاہیے اور بہتر مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے“۔
جماعت کے ایک اور سابق رہنما سیار احمد ریشی بھی کولگام اسمبلی سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ریشی نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ان کاکہنا تھا”یہ اللہ پر منحصر ہے کہ وہ کسی شخص کو برکت دے یا اسے ذلیل کرے۔ لیکن میں لوگوں سے اپیل کروں گا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں“۔ انہوں نے مزید کہا ”ہم اصلاحات کے لئے ایک تاریخی تحریک شروع کریں گے“۔
ریشی نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ نوجوانوں کو کھیلوں سے متعارف کروا کر تشدد سے دور رکھا گیا ہے، کہا کہ نوجوانوں کو روزگار کی ضرورت ہے۔
ان کاکہنا تھا”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نوجوانوں کو بلے دیئے گئے ہیں لیکن اس سے ان کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ بے روزگاری ہے اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے۔ عمر رسیدہ افراد کو صرف ہزار دو ہزار روپے تک کی معمولی بڑھاپے کی پنشن کے لیے ادھر ادھر بھاگنا پڑتا ہے۔ ہم سماجی انصاف کے لئے کام کریں گے“۔