سرینگر/۶اگست
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسمبلی انتخابات کے کامیاب انعقاد کے بعد مرکز کے زیر انتظام علاقے میں منتخب حکومت بڑے اختیارات کا استعمال کرے گی۔
انڈین ایکسپریس کو دیئے گئے ایک انٹرویو میںایل جی کاکہنا تھا” منتخب حکومت کے پاس بہت سے اختیارات ہوں گے۔ ہمارے آئین میں ہر ایک کے کردار کی وضاحت کی گئی ہے۔ اگر ہر کوئی آئین کے مطابق کام کرے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ ایک نہیں، بہت سی‘اگر ہم آئین میں دیئے گئے اختیارات کے دائرے میں رہیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ میں امن، خوشحالی اور ترقی کے حصول کے لئے منتخب حکومت کے ساتھ ایک اچھا توازن حاصل کرنے کے لئے کام کروں گا۔ کیا ہر کوئی یہ نہیں چاہتا؟ اگر یہی مقصد ہے تو تصادم کا امکان کہاں ہے“؟
سنہا نے کہا کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں، جس کا اظہار گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں لوگوں کی’زبردست اور پرجوش‘ شرکت تھی۔
جموں کشمیر میں اسمبلی الیکشن کے انعقاد کے امکان کے بارے میں سنہا کاکہنا تھا ”میں اس سوال کا جواب اس طرح دوں گا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہندوستان میں انتخابات نہیں ہوں گے۔ انتخابات ہونے چاہئیں۔ جب پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر تنظیم نو قانون منظور کیا گیا تھا تو وزیر داخلہ نے تین خاص باتیں کہی تھیں:پہلا، حد بندی۔ لوگ اکثر اس کا اظہار سیاسی الفاظ میں کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات نہیں ہوسکتے۔ سرحد کا فیصلہ کون کرے گا؟ جموں و کشمیر حکومت ایسا نہیں کر سکتی۔ اور یہ ایک طویل عمل ہے، جس میں اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کی ضرورت ہے۔ جسٹس رنجنا دیسائی کی قیادت والا حد بندی کمیشن تین بار جموں و کشمیر آیا۔ سیاسی جماعتوں نے بھی دہلی میں کمیشن سے ملاقات کی۔ اس کے بعد اسمبلی انتخابات۔ الیکشن کمیشن اب یو ٹی کا دورہ کر رہا ہے۔ جب وزیر اعظم یہاں تھے تو انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انتخابات جلد سے جلد ہوں گے۔ الیکشن کمیشن تاریخوں کا فیصلہ کرے گا۔ انتخابات کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔اور آخر پر مناسب وقت پر ریاست کا درجہ“۔
شہری بلدیاتی اداروں اور پنچایتوں کے انتخابات کے بارے میں سنہا نے کہا”ہم نے تین سطحی نظام قائم کیا اور اسے مختصر وقت میں بااختیار بنایا۔ ضلعی ترقیاتی کونسلوں اور بلاک ڈیولپمنٹ کونسل کو ضلعی سرمایہ کاری کا منصوبہ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ڈی ڈی سیز کے انتخابات 2020 کے آخر میں منعقد ہوئے تھے۔ جموں کے ساتھ ساتھ کشمیر کے تمام اضلاع میں ڈی ڈی سی کونسلر موجود ہیں۔ لیکن پنچ اور شہری بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ یہاں او بی سی کے لئے کوئی ریزرویشن نہیں تھا۔ جموں و کشمیر تنظیم نو قانون کے بعد کئی او بی سی اور ایس ٹی کو ریزرویشن مل گیا ہے۔ مخصوص نشستوں کے بارے میں بہت سی نمائندگیاں تھیں جنہیں محفوظ کرنے کی ضرورت تھی۔ ہمیں اسے حل کرنا تھا۔ لوک سبھا انتخابات سے ایک ماہ قبل ایک ریٹائرڈ جج کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جو ان سیٹوں کی نشاندہی کرے گی جنہیں محفوظ رکھا جانا چاہئے۔ لہٰذا اسمبلی انتخابات کے فورا بعد پنچایتوں اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات بھی کرائے جائیں گے“۔
آبادیاتی تبدیلیاور مقامی لوگوں کےلئے زمین اور ملازمتوںکے تحفظ کے بارے میں ایل جی نے کہا”میرے خیال میں یہ ایک فرضی سوال ہے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ سیاسی طور پر متاثر ہے۔ میں یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ آپ کو بتا رہا ہوں۔ جو تحفظ ہمالیائی ریاستوں ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کو حاصل ہے، وہ تحفظ جموں و کشمیر کو بھی دستیاب ہے۔ یہ قانون میں موجود ہے۔زرعی زمین جموں و کشمیر کے باہر سے کوئی بھی نہیں خرید سکتا۔ کلاس 3 اور کلاس 4 کی خدمات باہر سے کسی کو نہیں دی جاسکتی ہیں۔ یہ قانون ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جان بوجھ کر خوف پھیلایا گیا ہے۔ صنعت کے علاوہ کسی کو زمین نہیں دی گئی ہے۔ اگر حکومت ہند سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کو دفتر کی تعمیر کے لئے زمین کی ضرورت ہے تو انہیں زمین الاٹ کرنا ہمارا دھرم ہے۔ یہ ماضی میں بھی دیا گیا ہے“۔
جموںکشمیر میں سلامتی کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے سنہا نے کہا کہ جہاں تک سلامتی کا تعلق ہے تو صورتحال بہت بہتر ہے۔ ”جی ہاں، پچھلے ایک سال سے ڈیڑھ سال کے دوران جموں میں کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لئے ایک حکمت عملی موجود ہے“۔
ایل جی نے کہا”صورتحال افسوسناک ہے۔ میں زیادہ پریشان نہیں ہوں۔مجھے یقین ہے کہ ہم اس سے مو¿ثر طریقے سے نمٹیں گے۔ یہ پاکستان کا ڈیزائن بھی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج مقامی بھرتیاں ہیں۔ فورسز دراندازی کا خیال رکھیں گی۔ بھرتیاں، مجموعی طور پر، صفر ہیں“۔
جموں و کشمیر کے ایل جی نے جموں کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ حالیہ مہینوں میں جموں میں تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر جاری ایک بیان میں مسٹر سنہا نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں جمہوریت نے گہری جڑیں پکڑ لی ہیں۔
یہ پوچھنے پر کہ اگر اسمبلی میں منتخب حکومت آرٹیکل 370 کی بحالی کے لئے قرارداد منظور کرتی ہے تو آپ اسے کس طرح دیکھیں گے؟سنہا نے کہا”ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ دیا ہے۔ اب قانونی جانچ پڑتال کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ آئین کے نام پر حلف لیتے ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کے قانون کے خلاف جانا، یا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف جانا، ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ کسی ایسے کام کو کرنے کا قانونی تقدس کیا ہے جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے؟ اس کا فیصلہ معزز سپریم کورٹ نے ہر اسٹیک ہولڈر کو سننے کے بعد کیا ہے۔ اس کے بعد کوئی گنجائش نہیں ہے۔“